دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال
جو عورت دورانِ حمل اپنا خیال رکھتی ہے اُسے وضع حمل کے وقت بہت کم پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بچے کی پیدائش گھر پر یا اسپتال میں کرانے کا منصوبہ بھی بنا چکی ہوتی ہے۔وہ بڑی حد تک یہ بھی جانتی ہے کہ ماہر دائی یا ڈاکٹر سے کیا توقع کی جا سکتی ہے اور اُس کیساتھ کیسے تعاون کِیا جا سکتا ہے۔ معالج بھی بچے کی پیدائش کے طریقے،درد کی ادویات کے استعمال یا الیکٹرونک آلات کی مدد سے نوزائیدہ بچے کی حرکات کا جائزہ لینے کے سلسلے میں حاملہ عورت کی ترجیحات سے بخوبی واقف ہوگا۔ دیگر معاملات پر بھی باہمی اتفاق ضروری ہے: اگر گھر پر پیدائش پیچیدگی اختیار کر جاتی ہے تو وہ کس اسپتال یا کلینک میں جائیں گے؟ زیادہ خون بہہ جانے کی صورت میں وہ کیا کریں گے؟ چونکہ جریانِ خون بیشتر صورتوں میں ماں کی موت کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے انتقالِ خون قبول نہ کرنے والے مریضوں کے لیے خون کے متبادلات کا فوری انتظام ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں، اس بات پر بھی غور کِیا جانا چاہیے کہ اگر آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا کِیا جائے گا؟
دورانِ حمل باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جانا درپیش خطرات کو کم کرتا ہے۔جن دیہاتوں میں کلینک یا اسپتال تک رسائی محدود ہے وہاں تربیت یافتہ دائیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ماں بننے والی خاتون کو پیشہ ور مہارت رکھنے والوں کو تمام ضروری معلومات فراہم کرنی چاہئیں جس میں اس کی طبّی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ اُسے بِلاہچکچاہٹ سوال بھی پوچھنے چاہئیں۔ اگر کسی وجہ سے خون آنا، مْنہ پر سوجن، شدید سردرد یا انگلیوں میں درد اور اچانک سے نظر کم یا دھندلی، پیٹ میں شدید درد، اُلٹیاں، سردی سے بخار، بچے کی حرکات میں اچانک کمی بیشی یا تبدیلی،ا عضائے مخصوصہ سے پانی کا اخراج، پیشاب کرتے وقت درد یا پیشاب کم آنے لگتا ہے تو بِلاتاخیر طبّی مدد حاصل کی جانی چاہیے۔
دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال
دوران حمل خواتین کو کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس بارے میں ماہرین کاکہنا ہے کہ دورانِ حمل سمندری خوراک اور مختلف اقسام کی مچھلیاں کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ایک تو زیادہ نہ کھائیں۔دوسرا جو مچھلی کھائیں وہ اچھی طرح پکی ہونی چاہیے۔ اسی طرح مرغی یا بڑا گوشت بھی اچھی طرح پکا ہوا کھایا جائے۔تکوں وغیرہ سے پر ہیز ضروری ہے۔اسی طرح انڈا بھی پورا پکا ہواکھائیں۔ہاف فرائی سے بچا جائے۔ دورانِ حمل خواتین کو تھکاوٹ زیادہ ہو سکتی ہے اس لیے کافی پینے میں بھی احتیاط کی جائے۔ایک دن میں دو سے زیادہ کافی کے کپ پینے سے بچا جائے۔بغیر ابلا ہوا دودھ سمیت تمام غیر صاف شدہ جوس بھی آ پ کے لیے اچھا نہیں ہے، کیونکہ اس میں بیکٹیریا موجود ہوتا ہے جو ایک قسم کے جراثیم ہے۔ اس لیے اُبلے ہوئے دودھ کا استعمال کریں۔
ایک اوراہم غذائی جز فولاد ہے۔ دورانِ حمل عورتوں میں فولاد کی ضرورت دو گْنا بڑھ جاتی ہے۔ اگر اس میں فولاد کی کمی ہے تو اس میں فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یکے بعددیگرے حمل اس حالت کو بدتر بنا سکتے ہیں کیونکہ اس دوران شاید عورت کو اپنے اندر فولاد کی کمی کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ایسی صورت حال میں فولک ایسڈ اور فولاد حاصل کرنے کے لیے کلیجی، پھلیاں، ہرے پتوں والی سبزیاں، میوہ جات اور قوت بخش اناج ہیں۔ فولاد سے بھرپور غذائیت کو ہضم کرنے کیلئے اسے وٹامن سی سے پُر تازہ پھلوں کیساتھ ملا کر کھانا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
عام طور پر حاملہ عورت کی غذا میں پھل، سبزیاں، (بالخصوص گہری سبز، نارنجی اور سرخ)، پھلیاں (جیسے کہ لوبیا،سویابین،دالیں اور چنے)،اناج (ترجیحاً غذائیت سے بھرپور گندم، مکئی، جئی اور جَو)گوشت (مچھلی، مرغی، گائے)، انڈے،پنیر اور دودھ (ترجیحاً خشک دودھ) شامل ہونا چاہیے۔ بہتر ہے کہ روغن، چینی اور نمک کم مقدار میں استعمال کیے جائیں۔ پانی زیادہ پئیں۔ کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں اور ایسے مشروبات سے بھی دُور رہیں جنھیں محفوظ رکھنے یا اُنھیں ذائقے دار بنانے کیلئے دیگر اشیا ء(جیسے کہ رنگ اور ذائقوں) استعمال کی جاتی ہیں۔ نشاستہ دار غذا، مٹی اور دیگر ایسی اشیاء ناقص خوراک اور زہر پھیلنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
خواتین کو چاہیے کہ جو ڈاکٹر حاملہ ہونے اور صحت کے دیگر تمام مسائل سے بخوبی واقف ہے اس کی ہدایت کے بغیر کوئی دوا استعمال نہ کریں۔کیونکہ بعض وٹامنز بھی مضر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، وٹامن اے کی زیادتی بچے میں نقائص کا باعث بن سکتی ہے۔