پاکستانی ماؤں کو اپنے بچوں کو بریسٹ فیڈ کراناکیوں مشکل لگتا ہے؟

7,080

پچھلے ماہ شائع ہونے والے نیشنل نیوٹریشن سروے 2018سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق2011سے 2018تک پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے دوران ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے ۔
البتہ خالصتاََ بریسٹ فیڈنگ کا رواج اتنا عام نہیں ہوا۔2001 میں جوشرح 50% تھی وہ2011 میں کم ہوکر 37.7%ہو گئی ۔جو دوبارہ 2018 میں 28%ہوگئی اور اب پھر سے اپنے ہدف( جو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے مطابق 50%ہے )کے قریب ہو تی جارہی ہے۔
لیکن پھر صرف بریسٹ فیڈ کرانے والی ماؤں کی تعداد میں کمی کیوں ہورہی ہے؟
مارگلہ جنرل ہاسپٹل کی ماہر اطفال ڈاکٹر نازیہ عباسی کہتی ہیں کہ پاکستانی خواتین میں بریسٹ فیڈ کی عادت ہر آنے والے سال میں کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں ۔
ایک وقت تھا جب صرف اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی بریسٹ فیڈ کرانے سے کتراتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کے جسم کا شیپ خراب ہو جائے گا ۔لیکن اب متوسط طبقے کی خواتین بھی جو پورے دن کی ملازمت کرتی ہیں اور اپنے آفس میں ڈے کیئر سینٹر کی سہولت نہ ہونے کی بناء پر ان میں شامل ہو گئیں ہیں ۔
شازیہ لقمان ،جو اسلام آباد کی یونیورسٹی میں ملازمت کرتی ہیں،نے دو مرتبہ جڑواں بچوں کو جنم دیا اور ماں کے دودھ میں کمی نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے بچوں کو بریسٹ فیڈ نہیں کراسکیں اس کی وجہ ان کے دفتر میں ڈے کیئر کی سہولت کی عدم موجودگی تھی ۔
ََ’’دوران ملازمت مجھے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ دودھ کی زیادہ پیداوار کی وجہ سے مجھے فیڈ کرانے کی ضرورت ہوتی تھی ۔لیکن صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ،نہ ہی میرے پاس اتنے وسائل تھے کہ میں ملازمت چھوڑ دیتی۔‘‘انھوں نے بتایا۔
دوسری طرف نچلے طبقے کی خواتین ناقص غذا کی وجہ سے دودھ کی پیداوار میں کمی کی شکایت کرتی ہیں ۔

صرف ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح:

سروے کے مطابق ابتدائی چھ ماہ میں صرف ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح خیبر پختون خواہ میں سب سے زیاد60.7%))اور کے پی ۔این ایم ڈی میں 59.0%) )جب کہ سب سے کم آزادجموں اور کشمیر میں (40.1%)اور بلوچستان میں43.9%))ہے۔
ایک سال کی عمر تک دودھ پلانے کی شرح سب سے زیادہ یعنی 68.4%اور دو سال کی عمر تک یہ شرح56.5%))ہوگئی2011 کی شرح کے لحاظ سے اس میں بالترتیب77.3%سے کمی اور54.3%سے اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر عباسی کہتی ہیں کہ جن بچوں کو پیدائش کے چھ ماہ بعد تک ماں کا دودھ نہیں پلایا جاتا وہ زیادہ تر سانس کے انفیکشن جیسے نمونیہ اورڈائریا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹر عباسی صلاح دیتی ہیں کہ بچوں کو پیدائش کے بعد ابتدائی چھ ماہ تک صرف ماں کا دودھ دینا چاہئے اور کم از کم ایک سال تک پلانا چاہئے۔
ڈاکٹر عباسی بتاتی ہیں کہ شہری علاقوں میں اکثر مائیں بچوں کو بریسٹ فیڈنہیں کروا پاتیں کیونکہ جہاں وہ کام کرتی ہیں انھیں ڈے کیئر سینٹر کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔دوسری طرف زیادہ تر دفاتر اور ادارے بچوں کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں دیتے۔وہ کہتی ہیں کہ’’ماں کے دودھ کا کوئی بدل نہیں اور کوئی بھی فارمولا دودھ اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے معاشرے کا تھوڑا طبقہ ہی بچوں کے لئے فارمولا ملک کا خرچہ برداشت کرسکتا ہے۔ڈاکٹر عباسی بتاتی ہیں کہ بہت سے والدین دودھ کا خرچہ برداشت نہ کرنے کی وجہ فارمولا دودھ کی جگہ کھلا ہوا دودھ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہونے والی غذا کی کمی بچے کی جسمانی نشونماء پر اثر انداز ہوتی ہے اور بہت سی انفیکشن والی بیماریوں کا باعث بنتی ہے ۔
مایو کلینک کے شعبہء اطفال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عمران شاہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ کی عمر کے بعد بچے کو نرم غذا جیسے (کھچڑی،سوجی،کھیر اور کیلا)شروع کرائی جاسکتی ہے۔لہٰذا جن بچوں کو ابتدا میں ماں کا دودھ نہیں دی گیا انھیں نرم غذا شروع کرادینی چاہئے۔
بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلانے کی ایک وجہ ،اس بارے میں ماؤں کی ناکافی معلومات بھی ہے۔مثال کے طور پر بہت سی مائیں ایسی ہیں جن کا خیال ہے کہ اگر انھیں ٹی بی یا ہیپی ٹائیٹس ہے تو وہ بچے کو بریسٹ فیڈ نہیں کراسکتیں۔
ساتھ ہی ڈاکٹر شاہ اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ایڈز کی مریض خواتین کو بریسٹ فیڈ کرانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔وہ خواتین جنھیں ٹی بی یا ہیپا ٹائٹس ہے وہ اپنے بچوں کو بریسٹ فیڈ کراسکتی ہیں ۔انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے اندر بچے کو ماں کا دودھ ضرور پلانا چاہئے کیونکہ ماں کے دودھ میں اینٹی باڈیزکولوسٹرم ہوتا ہے جو بچے کے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت کو بڑھاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماں کا دودھ ماں اور بچے کے درمیان تعلق کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ’’بریسٹ فیڈ قدرتی طور پر حمل سے حفاظت کرتا ہے اور بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات کو بھی کم کرتا ہے۔‘‘


نومولود کے لئے ویکسینیشن کیوں ضروری ہے ؟


بریسٹ فیڈنگ کو کس طرح فروغ دیں ؟

ڈاکٹر شاہ کہتے ہیں کہ بریسٹ فیڈ کو فروغ دینے کے لئے حکومتی سطح پر بہت سی چیزیں کی جاسکتی ہیں جیسے فیلڈ آفیسرز کے لیکچرز کا انتظام کرنا، جس میں وہ ماں کے دودھ کی اہمیت پر بات کریں ۔
’’جب لیڈی ہیلتھ ورکرز گھروں میں جاکر ان مسائل پر بات کرتی ہیں تو خواتین یہ سوچ کر ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتیں کہ یہ تو ہمارے علاقے کی ہی عورتیں ہیں یہ ہمیں کس طرح سکھا سکتی ہیں ۔
’’دوسری طرف اب جبکہ خواتین میں ملازمت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے تو دفاتر میں ماؤں کے لئے علیحدہ نرسنگ روم کا انتظام بھی ضرور ہونا چاہئے۔‘‘ڈاکٹر شاہ صلاح دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر عباسی یہ بھی کہتی ہیں کہ کمپنیوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی بھی ضرورت ہے ’’پاکستان میں زیادہ تر خواتین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں نہیں ملتیں جبکہ انھیں بریسٹ فیڈ کے لئے بھی آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’کسی ملک جیسے پاکستان میں بریسٹ فیڈ کا انتخاب صرف اپنی حد تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمام خواتین کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے بچے کی صحت کے لئے بریسٹ فیڈنگ کتنی ضروری ہے۔
یہاںان سماجی اور معاشرتی حقائق کو تسلیم کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ان خواتین کے اختیارات کو کم کرتے ہیں جو اپنے بچوں کو بریسٹ فیڈ کرانا چاہتی ہیں ۔


اس آرٹیکل کو انگریزی میں پڑھئے 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...