ماہواری ۔۔۔۔۔ اس پر بات کرنا ضروری ہے

25,666
مہینے کے ان دنوں میں مجھے گھرمیں یہاں وہاں گھومنے کی اجازت نہیں تھی۔ کراچی کی رہائشی تیرہ سالہ بچی ساجدہ نے اپنے چہرہ کوچادرسے ڈھکتے ہوئے کہا۔ساجدہ کوداغ لگ جانے یاشرمندگی کے ڈرسے مہینے کے پانچ دن توضرورچھٹی کرناپڑجاتی تھی جس سے اس کی پڑھائی کا خاصہ حرج ہوتاتھا۔کپڑے پرداغ لگ جاناہی ایک وجہ نہیںبلکہ کئی اوروجوہات کی بناء پرمعاشرہ پیریڈز یعنی ماہواری کوشرم کاباعث سمجھتاہے اورلوگ اس بارے میں بات نہیں کرناچاہتے۔

ناپاکی اوردیگرچیزوں کوبہانہ بناکرخواتین کوکمروں میں بندکردیاجاتاہے اوروہ مفلوج ہوکررہ جاتی ہیں۔UNICEFکے ایک ایس ایم ایس پول کے مطابق جب 700لڑکیوں کی آراء لی گئی تو معلوم ہواکہ 29فیصد پاکستانی لڑکیاں اورعورتیںپیریڈز کے دنوں میں داغ کے ڈرسے اپنے اسکول اوردیگرکاموں پرنہیں جاتیں۔
یہاں نہایت کم عمرلڑکیوں کویہ سکھایاجاتاہے کہ وہ اپنے نجی معاملات اپنے تک ہی رکھیں۔خاص طورپرجن معاملات کاتعلق ان کے جسم سے ہوتاہے۔اسی وجہ سے نوجوان لڑکیاں ذاتی طورپرخود سے اپنے پیریڈ کے مسائل کومنظم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اوران دنوںنہایت محتاط رہتی ہیں۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثرلڑکیوں کواس مسئلے کے بارے میں مناسب معلومات حاصل نہیں ہوتی۔
جب پاکستانی خواتین سے ان کے پہلے پیریڈ کے بارے میں سوال پوچھاجاتاہے تو خواتین کی بڑی تعدادیہی جواب دیتی ہے کہ انھیں اپنے پہلے پیریڈسے پہلے ماہواری کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہیں تھیں۔کچھ خواتین نے اپنے پہلے پیریڈ کے بارے میں خطرناک اوردھچکہ لگنے والے احساسات کاتذکرہ کیا جوانھوں نے پہلی دفعہ آنے والے خون کو دیکھنے پرمحسوس کیا۔بہت سی کم عمرلڑکیوں نے توبتایاکہ انھیں لگاکہ اب وہ مرنے والی ہیں اورانھیں سمجھ ہی نہیں آیاکہ کیاکریں اورکس سے مددطلب کریں۔

مندرجہ بالاUNICEF سروے کے مطابق یہ بھی پتاچلاہے کہ49 فیصد پاکستانی لڑکیاں اپنے پہلے پیریڈ سے پہلے حیض کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔

2017 میںریئل میڈیسن فاؤنڈیشن نے بتایاکہ پاکستان میں79 فیصد خواتین اپنی حیض کی مدت کوحفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں گزارتی ہیں۔یہ سب تولیدی صحت کی تعلیم،ماہواری سے متعلق مکمل آگاہی اوراس کی صحت وصفائی کے اصولوں پرمنظم طریقے سے عمل کرنے سے متعلق شعوراوررسائی کی کمی کانتیجہ ہے۔پاکستان بھرمیں خواتین کے لئے حیض کاانتظام ایک اہم چیلنج ہے۔خاص طورپرکم آمدنی کے باعث جس کی وجہ سے خواتین کوصاف پانی،واش روم اورصفائی رکھنے والی مصنوعات دستیاب نہیں۔بات چیت کافقدان اورممنوعہ موضوع ہونے کی وجہ سے خواتین اپنے مسائل کااظہارنہیں کرپاتی جسکی وجہ سے حیض کی یہ مدت ان کے لئے مزید مشکلات کاباعث بنتی ہے۔خاص طورپرپاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشرتی،ثقافتی اورمذہبی پابندیاں زندگی کی وضاحت کرتی ہیں۔
ہمارے ہاںخریدنے کی سکت نہ ہونابھی ابھی تک ایک اہم مسئلہ ہے۔یہ سبب بھی ماہواری میں حفظان صحت کے اصولوں پراثراندازہوتاہے۔پاکستان میں زیادہ ترلڑکیوں اورعورتوں کوحیض کی اہم مصنوعات اورٹوائیلٹ جیسی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔اسی وجہ سے داغ کے خوف کے باعث وہ اپنی روزمرہ سرگرمیاں ترک کردیتی ہیںاورباقاعدہ انفیکشن کاشکارہوجاتی ہیں۔لڑکیاں اورخواتین پیریڈ میں آنے والے خون کے بندوبست کے لئے پرانے کپڑے،ٹکڑے،موزے،پتے حتٰی کے راکھ تک کااستعمال کرتی ہیں۔یہ تمام معاملات انفیکشن اوردیگرامراض کاسبب بنتے ہیں جس سے وہ بے خبرہوتی ہیں۔
پاکستان میں حیض کے حفظان صحت کے اصولوں کومانیٹرکرنے والوں کاکہناہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے پسماندہ طبقے کوبڑی مشکلات کاسامناہے۔ہمارا مقصد ہے کہ حیض کے معمولات کوصحت مند عمل کے طورپرلاگوکریں اوراس عمل کوخواتین کی لائف سائیکل کامثبت حصہ بنائیں۔ ہمارا مقصد غریب خواتین کوصرف حیض کی تعلیم دینانہیں بلکہ انھیںصفائی کی بنیادی مصنوعات کی دستیابی بھی ہے۔جس کی مددسے وہ محفوظ اورصحت مندطریقے سے اعتماداوروقارکے ساتھ حیض کی مدت گزاریں۔یہ وقت ہے کہ ہم پاکستان میں پیریڈ کومعمول کاحصہ سمجھیں تاکہ خواتین اورلڑکیاں حیض کی مدت کواعتماد اوروقار کے ساتھ گزارسکیں۔

تحریر : ثناء لوکھنڈوالا

ترجمہ : سائرہ شاہد

اس آرٹیکل کو انگریزی میں پڑھنے کے لئے کلک کریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...