تھیلسمیا اور پاکستان میں علاج سے متعلق معلومات

1,554

امراض کو بہتر انداز میں سمجھیں

ہیموگلوبن خون میں موجود وہ پروٹین ہوتا ہے جو کہ آکسیجن کے ساتھ مل کر اسے گردوں سے جسم کے دیگر خلیات تک پہنچا کر ان کی نشونما کو یقینی بناتا ہے ۔ہیموگلوبن میں کمی کو میڈیکل زبان میں انیمیا کہتے ہیں ۔ اس مرض میں مریض کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے ۔ اسے سانس لینے میں دشواری اور کمزوری محسوس ہوتی ہے ۔
انیمیا کی وجہ یا تو خون میں سرخ خلیات کی کمی ہو سکتی ہے یا ہیموگلوبن میں آکسیجن کے ساتھ ملنے کی اہلیت کا نہ ہونا۔ اس دوسری وجہ کا تعلق تھیلسمیا سے ہو سکتا ہے جہاں سرخ خلیات میں کوئی جینیاتی نسخ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ آکسیجن کے ساتھ نہیں مل پاتے ۔ چار ایلفا جینز اور دو بیٹا جینز ملا کر ایک ہیمو گلوبن پروٹین بنا تے ہیں ۔ ان جینز کی پیداوار میں کمی یا ان کی عدم موجودگی ہیموگلوبن کی کارکردگی کو کمزور بنا سکتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں تھیلسمیا کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں ۔

تھیلسمیا کی شدت میں اضافے کی بنیادی وجوہات

یہ مرض شدید نوعیت (thalassemia major) کا بھی ہوسکتا ہے اور معمولی نوعیتthalassemia minor) (کا۔ تھیلسمیا کی شدت کا تعلق اس بات سے ہے کہ جینز میں کتنی تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔
عام طور پر تھیلسمیا کی شدید نوعیت سے دوچار مریض کے لئے خون منتقلی (انتقال ِخون) لازم ہو جاتی ہے ۔دوسری طرف جن میں مرض کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوتی ان میں کافی عرصے تک مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی ۔
مائنر تھیلسمیا کے مریض کیرئیرز کہلاتے ہیں ۔ یہ کسی بھی عام انسان کی طرح زندگی گزارتے ہیں ۔ مسئلہ تب پیش آتا ہے جب دو مائنر تھیلسمیا کے مریضوں کی شادی ہوتی ہے ۔ ایسے میں ان کے بچوں میں تھیلسمیا کیررئیر ہونے کا خطرہ 50فی صد جبکہ تھیلسمیا میجرہونے کا خطرہ 25فی صد تک بڑھ جاتا ہے ۔
چونکہ یہ ایک جینیاتی مرض ہے اس لئے ایسے خاندان جن میں کزن میرجز کا رجحان ہو ، ان کے لئے اس مرض کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے ۔ پاکستان میں تھیلسمیا تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ہے ۔اس کے مریض سب سے زیادہ سندھی کمیونٹی میں ملتے ہیں ۔ جینیاتی مرض ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور نہ ہی لائف اسٹائل میں تبدیلی سے اس کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
عموماً جن گھرانوں میں تھیلسمیا کا مرض پایا جاتا ہے انہیں اسکریننگ(ٹیسٹ) کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔

پاکستان میں تھیلسمیا کا علاج

سی بی سی (complete blood count)ٹیسٹ کے ذریعے اس مرض کی تشخیص ہوسکتی ہے ۔ مزید جانچ کے لئے ہیمو گلوبن الیکٹرو فوریسس کا ٹیسٹ کرایا جاتا ہے ۔
نیشنل اسمبلی نے 2017میں ایک بل(compulsory blood of the relatives of thalassemia patient)پاس کیا تھا ، جس کے تحت تھیلسمیا کے مریضوں کے تمام بہن بھائیوں اور قریبی رشتے داروں کے لئے ٹیسٹ کرانا لازم ہوگا۔ اس بل کا مقصد یہ پتا لگانا تھا کہ کس کو مائنر تھیلسمیا ہے اور کس کے بچوں میں میجر تھیلسمیا ہونے کا خطرہ ہے ۔
مائنر تھیلسمیا یا کیریئرز کی تشخیص ہونے کے بعد مناسب تعلیم اور آگاہی سے اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ ساتھ ہی تھیلسمیا مائنر افراد کی شادی ہونے کا خطرہ بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔
حکومتِ پاکستان اس مرض کی روک تھام کے لئے متحرک نظر آتی ہے۔ مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کے علاوہ اس سے بچاؤ کی فوری حکمت ِ عملی بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ہر سال تھیلسمیا کے علاج میں 800ملین روپے کے قریب خرچ ہوتے ہیں ۔ اس کا بڑا حصہ مریض کے لئے خون کا بندوبست کرنے میں صرف ہوتا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خون کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے ، خون کی مانگ میں اضافہ تشویش ناک صورتحال پیدا کر سکتا ہے ۔
مستقل خون کی منتقلی سے جسم میں آئرن کی مقدار بے انتہا بڑھ جاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کے لئے ادویات دی جاتی ہیں ۔ ان ادویات میں سے ایک ہائڈروکس یوریا بھی ہے ۔اس دوا کا مقصد مریض میں خون کی منتقلی کی ضرورت کو کچھ حد تک کم کرنا ہے۔
غرض یہ کہ مرض کی روک تھام کے لئے تھیلسمیا مائنرز کوہر ممکن حد تک مرض کے بارے میں مکمل اور واضح معلومات مہیا کرنا ضروری ہے ۔ جب لوگ بچوں میں میجر تھیلسمیا ہونے کے خطرات کو سمجھیں گے تب ہی کزن میرج کی شرح پر قابو پایا جا سکے گا ۔ لوگوں کا آگاہی حاصل کرنے کے بعد معلومات کو اپنے گھر والوں اور رشتے داروں میں پھیلانا ضروری ہے ۔ اسی طرح اس مرض کو ملکی سطح پر ختم کیا جاسکے گا اور فرد، کمیونٹی اور ملک کو اس سے پیدا ہونے والے جسمانی ، ذہنی اور معاشی مسائل سے بچانا ممکن ہو پائے گا ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...