گرمیوں میں شیر خواربچوں کا خیال کیسے رکھا جائے؟

3,207

گرمی کی آمد کے ساتھ ہی بڑے خود کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرلیتے ہیں۔جیسے خود کو نمی فراہم کرنا ،زیادہ تر گھر میں رہنا اور جتنا ممکن ہو پانی پینا ۔اسی طرح شیرخوار بچوں کو بھی گرمی سے بچائو کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس کے لئے اپنے والدین کے محتاج ہوتے ہیں ۔کیونکہ بعض اوقات گرمی ان کے لئے نا قابل برداشت ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ماہ ہی ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل ساہیوال میںایئر کنڈیشن کی ناقص انتظام کی وجہ سے آٹھ بچے جاں بحق ہو گئے۔اس کے بعد پنجاب ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق اس قسم کے واقعے کے کا ذمہ دار ہاسپٹل اور ڈاکٹرزہوں گے۔ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ چھوٹے بچوں کو بھی گرمی میں مکمل احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔گرمی کی وجہ سے وہ صحت کے بہت سے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور جو پہلے ہی کسی بیماری میں مبتلا ہوں تو انھیں اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

شعبہء امراض اطفال کے جنرل سیکریٹری ،امراض اطفال کے کنسلٹنٹ ڈاکٹراور ڈائو میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمد خالد شفیع کہتے ہیں کہ ہسپتال کی تعمیر ایئر کنڈیشن کی تنصیب کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔
’’بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اکثر جگہوں پر ہوا کے گزرنے کا نظام صحیح نہیں ہوتا۔اگر وہاںاے سی کام کرنا بند کردیں تو گھٹن کی وجہ سے ایک گھنٹہ بھی کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ہوا کے گزرنے کا صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ـ‘‘۔انھوں نے تنبیہ کی۔
دوسری طرف گھروں میں بھی ہوا کا گزرصحیح ہونا چاہئے۔گرمی کے موسم میں اگرچھوٹے بچوںکا خیال نہ رکھا جائے تویہ بچوںمیں قوت مدافعت کمی کی وجہ سے انھیںبری طرح متاثر کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سخت موسم بھی بیماریوں کے مقابلے میں جسم کو کمزور کردیتا ہے۔

توجہ طلب علامات:

جراثیم اور بیکٹیریا گرمی میں تیزی سے نشونماء پاتے ہیں ۔اس وجہ سے چھوٹے بچے گرمی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں اورپانی کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
مایو ہاسپٹل کے شعبہ اطفال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹرعمران شاہ کہتے ہیں کہ شدید گرمی اور شدید سردی دونوں ہی چھوٹے بچوں کے لئے خطرناک ہیں ۔لیکن گرمیوں میںچھ ماہ کے بچوں کو ماں کا دودھ پلانا چاہئے۔ماں کے دودھ میں80فیصد پانی ہوتا ہے اور اس طرح بچے کے جسم میں پانی کی کمی نہیں ہونے دیتا ۔
ڈاکٹر شفیع کی ایک یہ بھی تجویز ہے کہ شیر خوار بچوں کو دن میں پانی کے بجائے وقفے وقفے سے ماں کا دودھ دیا جائے۔’’اگر علاما ت ظاہر نہ ہوں تو دوسری نشانیوں پر توجہ دیں ۔کیونکہ جب گرمی اثر دکھاتی ہے تو بچہ بے چین ہو جاتا ہے اور دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

قدرتی وسائل کا استعمال کریں:

مایو ہاسپٹل آنے والے بہت سے والدین دیہاتوں سے آتے ہیں اوراس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ گائوں میں بجلی اور ایئر کنڈیشن نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچا پاتے ۔
ڈاکٹر شاہ والدین کو صلاح دیتے ہیں کہ ایسی صورت میں بچوں کو تپش اور گرمی سے بچانے کے لئے درخت کے سائے میںلٹایا جائے ۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں کہ بچے کو دن میں 2۔3مرتبہ نہلایا جائے ۔
جلدی جلدی نہانے والے بچے گرمی دانوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں ،جس سے گرمی میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ یہ دانے ایک وقت پر خود ہی ختم ہو جاتے ہیں لیکن اگریہ زیادبڑھ جائیں اور ٹھیک نہ ہوں تو ڈاکٹر کو دکھانا چاہئیں۔

بچوں کو ہیٹ اسٹروک سے بچانے کے طریقے:

ڈاکٹر شاہ بتاتے ہیں کہ اگر بچے کے جسم میں پانی کی کمی ہو جائے توبچے کے سر کے درمیان کھال اندر دھنس جاتی ہے ،جلد اور زبان خشک ہو جاتی ہے اور گہرا زرد پیشاب آتا ہے۔ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو لے کر صبح 11سے شام 5بجے تک گھر سے نہ نکلیں تاکہ ان کا بچہ تیز دھوپ سے محفوظ رہے۔
مزید یہ کہ پاکستان میں اکثر والدین بچے کو بالکل لپیٹ کر رکھتے ہیں ۔لیکن ضیاء الدین ہاسپٹل کے ماہر اطفال ڈاکٹر زین یوسف علی مشورہ دیتے ہیں کہ بچے کو اس طرح لپیٹنے کے بجائے ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنائیں جائیں۔6ماہ سے بڑے بچوں کو پانی پلانے کے بارے میں ڈاکٹر یوسف کہتے ہیں کہ بچے کو بیماریوں سے بچانے کے لئے ابلا ہو پانی پلایا جائے۔اکثر مریض کہتے ہیں کہ ہم فلٹر کیا ہوا پانی پیتے ہیں تو میں انھیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،اس لئے بہتر یہی ہے کہ پانی کو15سے 20 منٹ کے لئے ابالا جائے۔
گھر کو صاف رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ گندگی کی وجہ سے بچے دست اور الٹی کا شکار ہوجاتے ہیں۔’’اگر ہم ماحول کو صاف نہیں رکھیں گے تو ہیضہ پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔‘‘


یہ آرٹیکل انگریزی میں پڑھنے کے لئے کلک کریں 


تحریر  :   عشرت سعید 

اردو ترجمہ :    سعدیہ اویس 


شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...