انسانیت کے علم بردار عبدالستار ایدھی

699

عبدالستار ایدھی یہ ایک ایسا بڑا نام ہے جو اب اس دنیا میں نہ رہا لیکن ہمیشہ اپنے اچھے کاموں اور خدمتِ انسانی کے باعث ہمیشہ زندہ رہے گا۔ایدھی صاحب جیسے لوگ کم ہی دنیامیں ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے زندہ رہتے ہیں۔انکے جانے سے پاکستان اور پاکستانی عوام بہت افسردہ ہے۔ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل صدمہ سے دوچار ہے۔انکی رحلت پاکستان کابڑا نقصان ہے ۔ عوام کامسیحا اس دنیاسے چلاگیاان جیسا عظیم اورسادہ انسان اب ملنامشکل ہے جسطرح قاعداعظم کے بعد کوئی نہ آسکا اسی طرح دوسرا ایدھی ملنابھی مشکل ہے۔

WEB_Edhi
عبدالستار ایدھی بھارتی شہر گجرات میں ۱ جنوری ۱۹۲۸ء ؁ میں پیدا ہوئے۔اور ۸ جولائی۲۰۱۶ ء ؁ کو گردے فیل ہونے کے باعث ۸۸ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ایدھی صاحب کا خلا ء کبھی بھی پر نہیں کیاجاسکتا۔پورا ملک سوگ کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ہر انسان کو ایک نہ ایک دن اس دنیاسے جاناہے لیکن اچھے لوگوں کے جانے سے دنیاخالی خالی لگنے لگتی ہے۔اللہ تعالیٰ ایدھی صاحب کی مغفرت کرے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔(آمین)

ایدھی صاحب جب گیارہ سال کے تھے تو انکی والدہ فالج کے باعث پیرالائز ہوگئیں تھیں اور ان کی حالت سے متاثر ہوکر ان میں بوڑھے، معذور،بیمار اوربے سہارا افراد کی خدمت کا جذبہ اجاگر ہوا۔جب ایدھی صاحب ۱۹ سال کے ہوئے تو انکی والدہ اس دنیاسے رخصت ہوگئیں۔لیکن انکی بدولت پاکستان کو عبدالستار ایدھی جیسے مسیحا مل گئے۔جنھوں نے مرتے دم تک صرف اور صرف پاکستان کو ہی اہمیت دی ۔علاج تک کے لئے وہ ملک سے باہر نہ گئے۔
۱۹۵۱ء ؁میں انھوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کراچی سے کیا۔جو بڑھتے بڑھتے پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ اس دنیامیں ایدھی صاحب یتیموں کے کفیل ،بے سہاروں کا سہارا ،بے گوروکفن لاشوں کو کفن و گور بلا نسلی تفریق فراہم کرنے والے تھے۔انکی ایمبولینس سروس دنیابھرمیں مشہور ومقبول تھی۔

sub-09edhi-obit-facebookJumbo

سیلاب ہویا دہشت گردی ہر مشکل گھڑی میں ایدھی صاحب آگے ہی رہتے تھے ۔انسانیت کی خدمت انکانسب العین تھا اور دو جوڑے انکا اساسہ ۔انکی سادگی کی مثال ملنامشکل ہے ۔تھوڑا سی دولت جمع ہونے پر لوگ گاڑی ،مکان اور آسائشات کا سوچنے لگتے ہیں اور ایدھی صاحب صرف ایک ہی سوچ رکھتے تھے اور وہ تھی دکھی انسانوں کی خدمت ،سچے پاکستانی تھے وہ جو ہم میں نہیں رہے۔

۱۹۶۵ ؁ء میں انھوں نے بلقیس ایدھی سے شادی کی ۔ انکے چار بچے جنمیں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔۲۵ جون ۲۰۱۳ ؁ ء کو انکے گردے خراب ہوگئے تھے ،جو انکی صحت کی خرابی کی وجہ بنے ۔انکی خراب صحت کے باعث انکے بچوں اور بلقیس ایدھی صاحبہ نے انکی ذمہ دار احسن طریقے سے انجام دی۔ایدھی صاحب نے ملکی اورغیر ملکی سطح پر ایوارڈ حاصل کئے۔انکے تمام ملازمین،ساتھی،زیر کفالت افراد اورتمام پاکستانی آج افسردہ ہیں انکے سرپرست اورسچے پاسبان آج اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

26bae01b91874447943b491c96e8bfb0
عبدالستار ایدھی جاتے جاتے بھی اپنی آنکھیں روشن کرگئے ۔ایدھی صاحب خود تو چلے گئے لیکن انکی آنکھیں ہمارے درمیان موجود رہیں گی۔انکی وصیت تھی کہ انکے انتقال کے بعد انکے اعضاء ڈونیٹ کردیئے جائیں۔لیکن کیونکہ وہ ذیابیطس کے مریض تھے اسی لئے انکے اعضاء میں سے صر ف آنکھیں آپریشن کے ذریعے ڈونیٹ کی گئیں جو بعد میں کسی مستحق کو دے دی جائیں گی۔

ایدھی صاحب کے بیٹے فیصل ایدھی نے انھیں اپنے ہاتھوں سے غسل دیا۔انکے جسد خاکی کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سفرِ آخرت پر لایاگیا۔ایدھی صاحب کے نماز جنازہ میں سیاسی ،مذہبی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے ایدھی صاحب کو سلامی دی۔ایدھی ولیج میں پچیس سال قبل انکے اپنے ہاتھوں سے تیار کی گئی لحد انکی آخری آرام گاہ ہے ۔جسمیں وہ ابدی نیند سوگئے ہیں لیکن تاریخ میں امر ہوگئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...