ڈائلیسس کی اقسام اور علاج میں جدت

3,181

گردے انسانی جسم کا نہایت اہم جز ہے ،بلڈ پریشر کو کنٹرول کرکے گردوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے ،ذیابیطس گردے خراب ہونے کی سب سے اہم وجہ ہے لہذا احتیاط اور غذائی تدابیر پر عمل کرکے ہم ایک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔مناسب کھانا، ورزش، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے گردوں سمیت دیگر امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، ملک میں2 کروڑ کے قریب افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں،ہر سال 27000 ایسے نئے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے جن کے گردے کام چھوڑدیتے ہیں، ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے لیے مصنوعی طریقے سے اپنا خون صاف کروانا پڑتا ہے جسے ڈائلیسس کہتے ہیں۔

ڈائلیسس کی وجوہات

ڈائلیسس کروانے والے 75 فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کے گردے ذیا بیطس اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں۔ اگر جلد تشخیص ہو جائے تو گردوں کا مرض قابل علاج ہے۔فوری تشخیص اور درست علاج گردوں کو مزید خراب ہونے سے روک سکتا ہے یا کم از کم ڈائلیسس یا ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کو موخر کر سکتا ہے۔

ڈائلیسس کی اقسام

گردوں کی خرابی کی صورت میں مریض کے پاس علاج کے تین راستے ہوتے ہیں: ہیمو ڈائلیسس، پیری ٹونیل ڈائلیسس یا گردے کی تبدیلی۔ ہیمو ڈائلیسس میں ایک مشین کے ذریعے خون کو صاف کیا جاتا ہے اور نقصان دہ اجزا، اضافی نمک اور پانی خون سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ ہیمو ڈائلیسس ہفتے میں تین مرتبہ کیا جاتا ہے اور ہر بار تین سے چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔اضافی مادوں کو صاف کرنے کا ایک اور طریقہ پیری ٹونیل ڈائلیسس ہے۔ ہیمو ڈائلیسس اور پیری ٹونیل ڈائلیسس عارضی اور مصنوعی طور پر گردوں کا فعل انجام دیتے ہیں۔یہ دونوں طریقے بہت مہنگے ہیں۔ ان کی مدد سے مریض کی صحت بہتر اور زندگی طویل ہو سکتی ہے تاہم یہ گردوں کی خرابی کا علاج نہیں ہے۔
گردے کا مرض عام طور پر30 سے40 برس کی عمر میں ہوتا ہے تاہم طبی رپورٹوں کے مطابق اب یہ مرض بچوں کو بھی ہونا شروع ہوگیا، خواتین میں دوران زچگی خون کی کمی کے باعث بھی گردے فیل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ گردوں کی پتھری ایک ایسا قابل علاج مرض ہے ۔پاکستان کے جنوبی علاقوں میں ہر 100,000 میں سے 200 افراد گردے کی پتھری میں مبتلا ہیں ا ور اس کی وجہ سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ مرض کثرت سے پایا جاتاہے۔گردوں میں پتھری بننے کے عمل کو روکنے کے لیے پانی اور دیگر مشروبات کا زیادہ استعمال ، خوراک میں پروٹین کی محدود مقدار کا استعمال اور بسیار خوری سے پرہیز ضروری ہے۔

بچوں میں گردوں کے امرض کی علامات

ہائی بلڈ پریشر، کمر کا درد،آنکھوں، ہاتھوں اور پیروں پر سوجن اور پیشاب میں خون آنا۔گردوں کی دائمی بیماری کی عام طور پر ابتدا میں شناخت نہیں ہو پاتی اور تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب گردے تین چوتھائی سے زیادہ متاثر ہو چکے ہوں جس کی وجہ سے مریضوں کی زندگی پر منفی اثرات مراتب ہوتے ہیں۔یہ خاموشی سے بڑھنے والا ایک مرض ہے جس میں کئی مہینوں یا سالوں کے دوران رفتہ رفتہ گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔65 سے 74 سال کی عمر کے ہر 5 میں سے ایک مرد اور ہر 4 میں سے ایک عورت گردوں کے امراض میں مبتلا ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس بیماری کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے دل کے دورے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور کچھ کیسز میں گردوں کی خرابی کی وجہ سے ڈائلیسس یا ٹرانسپلانٹ کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک فرد گردوں کے امراض میں کسی نہ کسی حد تک مبتلا ہے تاہم جنوبی ایشیائی ممالک یعنی پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔

علاج میں جدت

گردوں کے وہ مریض جو ہر ہفتے تکلیف دہ ڈائلیسس سے گزرتے ہیں ان کے لیے ماہرین نے ایک مصنوعی گردہ تیار کرلیا ہے جو چلتے پھرتے ان کا خون صاف کرکے مریضوں کی بہتر حالت میں رکھتا ہے۔جو روایتی ڈائلیسس عمل کی جگہ لے سکے گا اورمریضوں کو ہفتے میں 3 مرتبہ ڈائلیسس کرانا ہوتا ہے جس میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ اس آلے کو پہن کر مریض کہیں بھی جاسکتا ہے، اس آلے کا وزن ساڑھے 4 کلوگرام ہے لیکن مزید تبدیلیوں کے بعد اسے 2 کلوگرام تک محدود کرنا ممکن ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...