ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ،احساسِ کمتری!
علم و شعور کی کمی اکثر ایسے مسائل کھڑے کردیتی ہے جنکا بظاہر آپکو کو ئی حل نظر نہیں آتا اور آپ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جانے لگتے ہیں۔ ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ احساس کمتری بھی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ انسان کے اندرموجود ججھک زندگی کی دوڑ میں اسے کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔لیکن یہ ججھک اور ڈر آتاکہاں سے ہے کبھی آپ نے سوچاہے اس بارے میں کہ ،احساس کمتری کیا ہے؟ احساس کمتری درحقیقت غلط طرز فکر کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں اور ہمارے معاشرے میں اس کی بنیاد اکثر بچپن میں ہی پڑتی ہے بچے کو بات بات پر ڈانٹنا،اسکے ہر کام میں مین میخ نکالنا ،بے جا روک ٹوک کرنا ،ایک بچے کو دوسرے پر فوقیت دینا،نظر انداز کرنا، اس کی عمر سے زیادہ اس سے ایکسپیکٹ کرنا ان سب وجوہات کی بنا پر بچہ بچپن ہی سے مایوس اور بد دل ہوجاتاہے۔اور اسکا اپنی ذات پر سے اعتماد اٹھ جاتاہے۔اگر بچپن ہی سے شخصیت میں جھول آجائے تو بچے کوآنے والی زندگی میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے اسی لئے بچپن ہی سے بچوں میں اعتماد بڑھانا چاہئے انکے اچھے کاموں پر انھیں سراہنا چاہئے ۔
اپنے تمام بچوں کو برابر سمجھنا چاہئے چاہے تعلیم ہو یا شکل کسی بھی معاملے میں ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جانی چاہئے ہر بچہ کا اپنا ذہن اور اپنی سوچ ہوتی ہے اپنے بچے کی تعمیر کریں اسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہونے دیں ،آپکی حوصلہ افزائی آپکے بچے میں اعتماد کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی لگن بھی پیدا کرے گی۔
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ اکثر کسی کو بھی احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بچے ہوں یا بڑے سب ہی اس مسئلہ سے دوچار نظر آتے ہیں برابر ی و مساوات اور اعتماد کی کمی اسکی بڑی وجوہات ہیں ۔ اسی طر ح پریکٹیکل لائف میں داخل ہونے کے بعدانسان اگر ناموافق حالات میں گھر جائے او راسے شکست اور محرومی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتو تو بھی اسکے اندر احساس کمتری پیدا ہوجاتاہے۔
زندگی واقعی بہت کٹھن ہے مگر ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اگر انسان تمام دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود اگر اپنی شکست نہ مانے اور مسلسل جدوجہد کرتارہے تو کامیابی بالآخر اسکے قدم چومتی ہے عارضی ناکامی اور شکست سے د ل برداشتہ ہوکر ہمت نہیں ہارنی چاہئے مایوسی اور بددلی ہمیشہ شکست اور ناکامی کی راہ ہموار کرتی ہے اسکا بہترین حل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ مثبت طرزفکر اپنانے کی کوشش کرے اپنے اوپر اعتماد اور اپنے ذہن میں مثبت سوچوں کو جگہ دے تو شکست اور ناکامی کا تصور کبھی ابھرنے نہیں پاتا جب کوئی قدم اٹھائیں توہمیشہ اپنی جیت تصور کرتے ہوئے محنت کریں اور یہ حقیقت ہے کہ اسطرح سوچنے سے بالآخر فتح آپکی ہوگی بشرطیکہ آپنے کڑی محنت کی ہو۔
اگر ایک دفعہ احساس کمتری کی چھاپ لگ جائے تو و ہ شخصیت پر بڑا گہر ااثر چھوڑتی ہے۔اگر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو اکثر لوگ اپنی گفتگوسے،بحث میں الجھنا، اور سامنے والے پر اپنا رعب جھاڑتے نظر آئیں گے،یہ سب احساس کمتری کی مختلف شکلیں ہیں۔ضرورت سے زیادہ انکساری بھی احساس کمتری کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ان سب میں انسان شعور اور ذہن کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ یہ سب لاشعوری طور پر ہوتاہے اور مقصد صر ف یہ ہوتاہے کہ اپنے کردار کی خامیوں اور کمزوریوں کو چھپایا جائے۔
خود آگاہی ،احسا س کمتری سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسکے علاوہ اگر آپ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھالیں کہ اگر اللہ آپکے ساتھ ہے تو پھر کوئی بھی آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتاہے اللہ پر بھروسہ آپکو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرے گا۔اللہ پر اعتماد اور یقین کرنے سے آپ خود اپنی ذات اور صلاحیتوں پر اعتماد اور یقین کرنے لگیں گے۔اس بھروسہ کے ساتھ آپ اپنے اندر عزم،حوصلہ اور استقلال محسوس کریں گے۔
قدرت نے انسان کو جو مختلف صلاحیتیں عنایت کی ہیں ان میں سے ایک بڑی قوت سوچ ہے زندگی کی اکثر خوشیاں اور مصائب اسی سوچ کی مرہون منت ہیں انسان کے تمام خیالات پر اس ابتدائی سوچ کا نمایاں اور گہرا اثر پڑتاہے۔ سوچ کے عمل کوہمیشہ صحت مند رکھنا ضروری ہے اپنے مستقبل کی تعمیر اور ترقی کیلئے آپ کو جو ساز وسامان درکار ہے وہ سب آپکے ذہن میں موجود ہے ذہن کو پراگندگی اور پریشانی سے محفوظ رکھیں۔اپنے کاروباریا پیشے میں ترقی کے لئے ہمیشہ نئے اور اچھوتے خیالات کے بارے میں سوچیں۔کسی چیز کو اپنے اوپر حاوی نہ کریں۔
ہنری فورڈ سے کسی نے ۷۵ سال کی عمر میں اچھی صحت کا راز پوچھا تو وہ کہنے لگاکہ میں نہ تو زیادہ کھاتاہوں،نہ زیادہ فکر وترددکرتاہوں اور جب کسی بات پر پوراعلم اور تجربہ صرف کرلیتاہوں تو مجھے کامل یقین ہوتاہے کہ اس کوشش کا جوبھی نتیجہ نکلے گا وہ لازماً اچھا اور بہترین ہوگا۔
اسی طرح آپ بھی ان سنہری اصولوں کو اپنانے کی کوشش کریں ماضی میں اگر آپکی کو ئی تلخ یادیں ہیں تو انھیں اپنی کمزوری نہ بنائی بلکی نصیحت سمجھ کر آگے قدم بڑھائیں ہر پریشانی اپنے اندر ہی اپنا حل رکھتی ہے ماضی تو دوبارہ نہی آسکتالیکن ماضی کی تلخ یادوں میں رہ کر اپنا حال برباد نہ کریں اور خوب سے خوب تر مستقبل کی جدوجہد کریں۔