بچوں کے نفسیاتی مسائل

1,309

کچھ بچے غیر ضروری جبر، مارپیٹ یا ڈرانے دھمکانے کے سبب خوف کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں مختلف قسم کی چیزوں سے بلاوجہ خوف آنے لگتا ہے۔ جیسے جانور، کیڑے مکوڑے، ناواقف لوگ، بادل کی گرج، اندھیرا یاہوائی جہاز کی آواز وغیرہ۔ کچھ بچوں میں یہ نفسیاتی عارضے اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ بالکل بزدل ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں نیند میں بھی خوف آنے لگتا ہے اور ڈراؤنے خواب ان کی نیند میں مسلسل مداخلت کرتے رہتے ہیں۔اسکول سے ڈر اور خوف بھی اس کی ایک قسم ہے۔ بچہ اسکول جانے سے گھبراتا ہے۔ اسے اپنے اساتذہ اور اسکول کے دوسرے بچوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے حوصلہ افزائی، پیار و محبت، انعام و اکرام دے کر اسکول میں کچھ وقت گزارنے کے لیے رضا مند کیا جائے۔
ڈراؤنے خواب دیکھنے والے بچوں کو نیند کم آتی ہے۔ وہ بار بار جاگ جاتے ہیں یا سوتے میں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ نیند سے بیدار ہوکر رونے لگتے ہیں۔ بستر پر اِدھر اُدھر جگہ بدلتے ہیں۔ ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی، بلکہ وہ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں اور بے آرام دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر اچانک صدمہ، ڈر و خوف پر مبنی واقعات پیش آنے یا نیند سے قبل ڈراؤنی کہانیاں سننے، بار بار حوصلہ شکنی، والدین سے جدائی یا مارپیٹ وغیرہ کے سبب بچہ رات کو سوتے میں ڈرتا ہے۔ ایسے بچے کو حوصلہ دینے اور یقین دہانی کروانے کے علاوہ اسے اپنی ذات پر اعتماد بحال کرنے میں مدد دینا چاہیے۔ اگر ماں بچے کو اپنے ساتھ سلائے تو بہتر ہے۔ اس کے ذہن سے ڈر اور خوف کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
دوسرے بہن بھائیوں اور خاندان میں موجود بچوں سے حسد کا پیدا ہونا ایک عام نفسیاتی مسئلہ ہے۔ خصوصاً بڑے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے ساتھ پیار و محبت اور توجہ میں اضافہ کریں۔ دوسرے لوگوں کے سامنے سزا دینے سے گریز کریں۔ انھیں ان کی اہمیت کا احساس دلائیں اور ان کے حسد کے جذبے کو مسابقت و مقابلے کی صحت مند فضا میں بدلنے کی کوشش کریں۔ذہنی صدموں، والدین کی جانب سے عدم توجہ، بچوں کے ساتھ سلوک میں تفریق، بار بار غصہ یا تنقید کرنے کے سبب بچوں میں احساس کمتری اور احساسِ عدم تحفظ جنم لیتا ہے، ان کا اپنی ذات پر اعتماد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ جس کا اظہار وہ مختلف صورتوں میں کرتے ہیں۔بچے کی زبان میں لکنت آسکتی ہے، وہ دوسروں سے الگ تھلک رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور اجنبی لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے، کسی نئے کام میں ہاتھ ڈالنے سے اجتناب کرتا ہے۔ اس کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ والدین سمجھ داری سے اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔
بچوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھیں اور انھیں انفرادی توجہ دیتے رہیں۔ ان کی جائز خواہشات کو پورا کریں، ان میں خود اعتمادی کو ابھاریں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔کچھ بچوں میں سماجی یا جذباتی محرومیوں کا ردّعمل غصے کی شکل میں اُجاگر ہوتا ہے اور وہ معمولی معمولی بات پر شدید غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے بچوں کو مارتے ہیں۔ برتن توڑتے ہیں یا کھانا کھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے ہیں یا کتابوں کو پھاڑ دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں والدین کو سختی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے پیار و محبت سے پیش آئیں، اور ان کی محرومیوں کو کم کرکے راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...