گورے رنگ کی جنگ کہیں مہنگی نہ پڑ جائے!

4,829

مشہور افریقی فلسفی، مصنف اور ماہر نفسیات فرینٹز فینن (Frantz Fanon) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ،”انسان کا رنگ وہ خود نہیں بناتا ، بلکہ یہ فطرت کی دین ہے ۔”
لگتا ہے ہم اس بات کو پوری طرح فراموش کرچکے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک پاکستان میں رنگ کی بنیاد پر کسی کو ترجیح دینا یا تنقید کا نشانہ بنانا ایک عام بات ہے ۔ جہاں ابھی لوگ مشہور گورا کرنے والی کریم کے سراب سے ہی ابھی باہر نہ نکل پائے تھے وہاں میڈیاکی جانب سے گورے رنگ کو ایک اور سلامی “تک فیئر اینڈ لولی کا جلوہ “گانے کی صورت میں پیش کردی گئی ۔ امریکہ اور دیگر مغربی مماملک میں سنہری رنگت کو فوقیت دی جاتی ہے جب کہ مشرقی ممالک میں گورا رنگ ایک قابل فخر خوبی مانا جاتا ہے ۔دیگر کئی مشرقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی “گوری بہو “کا تصور عام ہے ۔

یہ ہی وجہ وہ یہاں گورا کرنے والی کریموں کی فروخت عروج پر ہے ۔ خاص طورپر نو عمر خواتین اس کریم کو اپنی ایک اہم ضرورت سمجھتی ہیں اور انہیں استعمال کیئے بغیر گھر سے نکلنا معیوب سمجھتی ہیں ۔ گورا کرنے والی کریمیں بنانے والی کمپنیاں اپنے پراڈکٹ کے استعمال سے ایک ہفتے میں گورا نظر آنے کا دعوے اکثر کرتی نظر آتی ہیں ۔ان کریموں کے علاوہ کئی صابن، فیس واش اور بلیچ کریمز جلد کا رنگ تبدیل کرنے یعنی اسے گورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔ ان تمام پراڈکٹس کے بعد ایک نیا پراڈکٹ جس نے بیوٹی انڈسٹری میں دھوم مچادی ہے ، گورا کرنے والے گلوٹا تھائن وائٹننگ انجیکشن اور ٹیبلٹس ہیں ۔ یوں تو اپنی جلد کا خیال رکھنے اور اسے اپنی قدرتی شکل میں واپس لانے کی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ، البتہ اس کا جنون کی حد تک شوق انسان کو ایسے پراڈکٹس استعمال کرنے پر مجبور کردیتا ہے جو کہ جلد کو وقتی طور پر تو گورا کردیتے ہیں لیکن آگے چل کراسے شدید نقصان پہنچاتے ہیں ۔ مذید یہ کہ جلد کا رنگ تبدیل کرنا نہ ہی کوئی درست عمل ہے اور نہ ہی خوبصورتی کی علامت۔ بلکہ اس کی صفائی کا خیال رکھنا اور اس کی قدرتی چمک برقرار رکھنا اسے گورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے ۔

کریموں اور ایسے دوسرے پراڈکٹس سے حاصل ہونے والا گورا رنگ آگے چل کر کافی مہنگا پڑتا ہے۔ محض یہ نہیں کہ گورا کرنے والے پراڈکٹس انتہائی مہنگے داموں میں فروخت ہوتے ہیں بلکہ یہ ہماری جلد کو بھی سخت نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ان پراڈکٹس کی تیاری میں اکثر پارہ (Mercury) استعمال کیا جاتا ہے جو کہ انسانی جلد کے لیے ایک انتہائی مضر کیمیکل ہے ۔ پارہ جلد کی پہلی تہہ کو جلا دیتا ہے جس سے جلدگوری لگنے لگتی ہے ۔ جس کریم میں جتنا زیادہ یہ کیمیکل ہوگا وہ اتنی ہی جلدی اور زیادہ جلد کو گورا کردے گی ۔ پارہ اس قدر نقصان دہ ہے کہ اگر یہ کسی حاملہ عورت کی جلد سے جسم میں داخل ہوجائے تو نہ صرف ماں کو بلکہ بچے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔

امریکہ اور برطانیہ میں ایسے بیوٹی پراڈکٹس کی فروخت پر پابندی عائد ہے جن کی تیاری میں پارے کا استعمال کیا گیا ہو ۔ مگر پاکستان میں ایسے پراڈکٹس بیوٹی شاپس اور اسٹورز میں باآسانی دستیاب ہیں ۔ اس بات کا پتا لگانا انتہائی مشکل ہے کہ کسی پراڈکٹ میں کون سا کیمیکل استعمال ہوا ہے ، چونکہ پاکستان میں عموماًپراڈکٹس پر ان کی تیاری میں استعمال کیئے جانے والے اجزا کی فہرست نہیں دی ہوتی ۔ البتہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بیوٹی کمپنیز اپنے پراڈکٹس میں اس کیمیکل کابے دریغ استعمال کرتی ہیں ۔

جو ادارے اپنے پراڈکٹس میں پارے کا استعمال نہیں کرتے وہ اس کی جگہ ہائیڈروکوئنن (hydroquinone) اور اسٹیرایڈ(steroid) استعمال کرتے ہیں ۔ یہ مرکبات بھی اگر زیادہ عرصے تک جلد پر استعمال کیئے جائیں تو جلد کو کافی حد تک نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ نائٹ کریموں میں اکثر اسٹیرایڈ استعمال کیئے جاتے ہیں جو کہ جلد میں جذب ہوکر اسے پتلا کردیتے ہیں، جلد پر کیل منہاسے نکل آتے ہیں اور
بال بھی تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں ۔ ہائڈروکوئنن سے ا سکن پر الرجی ہوجاتی ہے اس کے علاوہ اس کے دیرپا استعمال سے جلد اپنا اصل رنگ بھی کھو دیتی ہے ۔ اس کے باعث جلد کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی جلدپر جھائیاں اور دھبے نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ قانون کے مطابق کسی بھی بیوٹی پراڈکٹ میں 2فیصد سے زیادہ ہائیڈروکوئنن کے استعمال کی ممانعت ہے ۔ لیکن کمپنیاں قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے پراڈکٹ کی فروخت بڑھانے کے لیے بے اس مرکب کا استعمال کرتی ہیں ۔

وائٹننگ کریم استعمال کرنے والی خواتین کو اکثر کیل مہاسوں، جلد دو رنگ کی ہوجانے اور داغ جھائیوں کی شکایت رہتی ہے جسے دور کرنے کے لیے وہ اپنی جلد پر مزید کیمیکلز اور پراڈکٹس کا استعمال کرتی ہیں ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان پراڈکٹس سے من چاہا نتیجہ نہیں ملتا تو لوگ دوسرے پراڈکٹس یا کریموں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان تجربوں سے جلد کو جو نقصان بہنچتا ہے اسے دور کرنا اکثرمشکل ہوجاتا ہے ۔ جن کریموں سے امید کے مطابق فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی وقتی ہوتا ہے ۔ بعد میں جب کہ ان پراڈکٹس کے نقصانات سامنے آنے شروع ہوجاتے ہیں تب بھی لوگ انہیں چھوڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی گوری رنگت کھو ناجائے ۔

آج کے دور میں سب سے جلدی گورا کرنے والا ایجنٹ گلوٹاتھائن (glutathione) ہے ۔ جسم میں یہ کیمیکل اپنے آپ پیدا ہوتا ہے جو کہ پارے کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مختلف سبزیوں اور پھلوں میں بھی یہ کیمیکل پایا جاتا ہے ۔ یہ جگر کی صفائی کرتا ہے اور جسم میں سے فاضل مادوں کو خارج کرتا ہے ۔ یوں تو یہ ایک انتہائی مفید کیمیکل ہے لیکن اس کا غلط یا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی انسانی جلد کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔ آج ایشیا کے کئی امرا اور نامور ہنستیاں اسی کیمیکل کا استعما ل کرکے اپنی جلد کو گورا کر رہے ہیں جوکہ ایک زمانے میں محض جان بچانے کی ادویات بنانے میں استعمال ہوتا تھا ۔

دیگر کیمیکلز کی طرح یہ بھی جلد کے اند ر موجود پگمنٹ مینالین (جس کا تعلق جلد کی رنگت سے ہے) کے ساتھ مل کر سیاہ پگمنٹ کو سرخ پگمنٹ میں تبدیل کردیتا ہے ۔ کئی تحقیق نے اسے جلد کو گورا کرنے کے لیے مفید قرار دیا ہے البتہ امریکہ کی خوراک اور ادویات کی ایڈمنسٹریشن نے اسے طویل عرصے تک استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی ہے ۔ مختصراً یہ کہ بنا کسی حقیقی عضر یا ضرورت کے رنگ گورا کرنے والے پراڈکٹس سے گریز کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی ان پراڈکٹس کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو استعمال سے پہلے کسی اچھے ماہر امراض جلد سے ضرورمشورہ کرلے۔ خوبصورتی آپ کے رنگ میں نہیں آپ کی شخصیت اور کردار میں ہے ۔ اگر آپ اپنی زندگی صحت کے اصولوں کے مطابق گزاریں تو آپ خود بخود خوبصورت لگنے لگیں گے اور ارد گرد کے لوگ بھی آپ کے اس حقیقی حسن کی تعریف کیئے بنا رہ نہیں پائیں گے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...