Facebook Pixel

بھولنے کی عادت اچھی ہے یا بری؟

1,671

بھولنے کی عادت ان دنوں بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے ۔لوگ اپنی اس عادت سے اکثرپریشان نظر آتے ہیں۔بعض لوگوں کی یاداشت عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے لگتی ہے اور وہ باتیں بھولنے لگتے ہیں جو کہ کوئی خطرے کی بات نہیں بلکہ ماہرین تو اسے اعصابی صحت کے لیے مفید مانتے ہیں ۔ سائنسدانوں کے مطابق آپ ایک کام کو بھول کر دوسرے کی جانب رجوع کرتے ہیں تو یہ آپ میں نئے کام کو سیکھنے کے صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ بھول جانا نئے کام سیکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بھول جانے کی عادت آج کی تیزرفتار دنیا میں نئی مہارت اور علم سیکھنے میں بے حد کارآمدثابت ہوسکتی ہے اور اسے ایک نارمل عمل سمجھنا چاہیے ۔ کبھی کبھی کسی ذہنی دباؤ یا ٹینشن کی وجہ سے بھی انسان وقتی طور پر باتیں بھولنے لگتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر یہ مسئلہ مستقل رہے یا انسان بہت ساری باتیں بھول جائے تو یہ خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

اعصابی ماہرین اور معالج کے مطابق بھولنے کی مندرجہ ذیل سات اقسام یا یاداشت کے مسائل نارمل تصور کیئے جاتے ہیں:

1۔ کچھ وقت کے بعد واقعا ت اور حقائق بھول جانا ۔ عموماًجو باتیں کافی عرصے تک نہیں دہرائی جاتیں انہیں انسان بھولنے لگتا ہے ۔ذہن کی یہ سرگرمی استعمال نہ ہونے والی یاد کو بھلانے میں مدد کرتی ہے جس سے ذہن کو نئی یادیں اسٹور کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
2۔ کوئی بات غور سے نہ سنی جائے تو وہ بھی کچھ دیر بعد ذہن سے نکل جاتی ہے ۔ مثال کے طورپر آپ اپنا قلم رکھ کر بھول جاتے ہیں کیونکہ جس وقت آپ اپنا قلم رکھ رہے تھے آپ کا دھیان کہیں اور تھا ۔
3۔ کبھی کبھی کوئی آپ سے سوال کرتا ہے جس کا جواب آپ کو پتا ہوتا ہے لیکن اس وقت اچانک ذہن سے نکل جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ آپ نے اس بات پر توجہ نہیں دی تھی بلکہ کوئی اور چیز آپ کو وہ بات یاد کرنے میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے ۔
4۔ اگر کوئی آپ سے کسی شخص کے بارے میں پوچھے کہ وہ کون ہے اور آپ سہی بتا دیں مگر یہ غلط بتائیں کہ اس بارے میں آپ نے کہا سنا تھا ۔ بات یاد رہنا اور ذرائع بھول جانا بھی ایک عام طرز کی یاداشت کی کمزوری ہے ۔
5۔ بعض اوقات انسان اپنے ذہن میں ایک فرضی خاکہ تیار کرلیتا ہے اور اسے سچ ماننے لگتا ہے۔ جیسے کہ گر کوئی ہمیں ہمارے بچپن کے بارے میں کچھ بتائے تو ہمارا دماغ اس بات کو سچ مانتے ہوئے ایسے ہی فرضی واقع کی یادذہن میں بنا لیتا ہے ۔
6۔ اکثر اوقات ہم وہ ہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے اسی طرح یاد بھی کر لیتے ہیں ۔ اس کی وجہ ہمارے ذاتی تعصبات ہوتے ہیں جو ہماری سوچ پر ہاوی ہو جاتے ہیں ۔
7۔ کبھی ہم کوئی واقع یا حقیقت شدت سے بھولنا چاہتے ہیں لیکن بھول نہیں پاتے۔ یاداشت کا یہ مسئلہ بھی عام نوعیت کا ہے جو کم و بیش سب کے ساتھ ہی پیش آتا ہے ۔

یاداشت تیز کرنے کے ٹوٹکے
*باتیں ا ور چیزیں یاد رکھنے کا بہترین طریقہ انہیں لکھنے کی عادت ڈالنا ہے ۔ اپنے ساتھ ہمیشہ ایک نوٹ بک رکھیں اور جب کوئی ضروری بات ہو اس میں لکھ لیں ۔ آپ خیالات، معاہدے اور ضروری تاریخیں لکھ سکتے ہیں ۔
*ناموں کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی محفل میں آپ کو کوئی اپنا نام بتاتا ہے تو صرف ذہن میں اس کا ایک نوٹ ہی نہ بنا لیں بلکہ اس نام کو بات چیت میں فوراً استعمال بھی کریں ۔
*کسی کی مدد لیں!اگر آپ کوئی بات یاد رکھنا چاہتے ہیں تو کسی دوست سے کہیں کہ اس وقت آپ کو وہ بات یاد دلا دے ۔
*غذا سے بھیبھولنے کی عادت ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ بادام خصوصاً ایک ایسی غذا ہے جو نہ صرف غذائیت سے بھرپور ہے بلکہ اس سے یاداشت بھی تیز ہوتی ہے ۔ بادام میں موجود زنک دماغ میں موجود سیلز کی حفاظت کرتا ہے ۔
*ماہرین کے مطابق سیکھنے اور پیچیدہ عوامل کے بارے میں سوچنے سے انسان کے اعصابی خلیات کے درمیان رابطے مضبوط ہوتے ہیں اور جب کبھی الزائمر دماغ پر حملہ کرتا ہے تو یہ مضبوط خلیات آگے سے بھرپور دفاع کرتے ہیں۔
*روز میری ایک خاص قسم کا پھول ہے جو یاداشت کو تیز کرتا ہے ۔ ویسے تو اسے غذا کے طور پر استعمال کرنے کے کئی طریقے ہیں لیکن سب سے بہترین طریقہ اس کی چائے کا استعمال ہے۔ ان دنوں کئی چائے کی برانڈز میں روز میری کا فلیور آسانی سے مل جاتا ہے ۔
*یاداشت درست رکھنے کے لیے مکمل نیند لینا بھی ضروری ہے۔ ایک نارمل انسان کو کم از کم دس گھنٹے کی نیند لینی چاہیے ۔ سونے سے ذہن کو سکون ملتا ہے اور وہ ترو تازہ ہو جاتا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...