شادی کے بعد کس کی سنیں کس کی نہ سنیں؟

3,060

شادی کے بعد اکثر مرد حضرات یہی سوچتے ہیں کہ کاش وہ سماعت سے محروم ہوتے! کیونکہ ساس بہو کی روایتی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان بے چارے شوہر ہی کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی خوش قسمتی سے ان مسائل کا شادی کے کچھ عرصہ بعد ہوتا ہے تو کہیں بدقسمتی سے کچھ دن بعد ہی شکایتوں کے دفتر کھل جاتے ہیں۔ وہ مرد جو سارا دن اکڑ کر چل رہا ہوتا ہے اور دفترمیں اپنا دماغ کھپا رہا ہوتا ہے جب تھکا ماندہ گھر پہنچتا ہے تو بہت سے مسائل کا انبار موجود ہوتا ہے۔ یہ مسائل ہوتے ہیں گھریلو ناچاقیوں کے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے جن سے اکثر مرد حضرات جان چھڑاتے ہیں! مگر کریں تو کیا کریں کہ لوٹ کے آخر گھر کو آنا ہے۔

اماں کے پاس سلام کرنے گئے کہ بیگم کی شکایتیں شروع۔’’تیری دلہن سارا دن بستر توڑتی رہتی ہے۔‘‘(جبکہ وہ سارا دن کام کے بعد بہ مشکل ایک ہی گھنٹہ لیٹی ہو)’’ سیدھے منہ بات تک نہیں کرتی۔‘‘(اب اگر وہ مروتاً خاموش ہوگئی تو کیا مضائقہ ہے)’’یہ نہیں ہوتا کہ مجھ بڑھیا کے پاؤں داب دے، جوڑ جوڑ دُکھتا ہے میرا۔تُو بھی چٹیا نہیں کھینچتا اس کی ، جورو کا غلام۔ یہ نہیں ہوتا کہ دوہاتھ لگا اس کے کہ میری ماں کی خدمت کیاکر۔‘‘ اِتنے میں بیگم پانی کا گلاس لے کر آگئی۔’’آپ فریش ہوجائیں میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘۔۔۔’’دیکھا، یہ تو چاہتی ہی نہیں کہ تُو میرے پاس آکر بیٹھ، بس اسی کے پلّو سے بندھا رہے۔‘‘امّاں پھر شروع ہوگئیں۔

اب اگر کھانے کے بعد کچھ سکون میسر آیا تو بیگم شروع ہوگئی۔’’بات سنیں! کیا آپ مجھے اس گھر میں نوکرانی بناکر لائے ہیں؟ اپنے گھر میں تو میں کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتی تھی اور یہاں سارا سارا دن لگی رہتی ہوں مگر امّاں کی صلواتیں ختم نہیں ہوتیں۔ آپ کی بہنیں الگ باتیں سناتی ہیں۔ اس گھر میں میرے نوالے تک گنے جاتے ہیں ۔ اور آپ ہیں کہ آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘‘۔۔۔’’یار میرے سر میں درد ہورہا ہے ایک کپ چائے ہی پلادو۔‘‘ بے چارہ شوہر اتنا ہی کہہ سکا۔’’میرا غم سننے کے لیے تو ٹائم ہی نہیں آپ کے پاس۔ آتے ہی امّا ں نے کان جو بھردیے ہوں گے۔ آپ کب سے ہوٹل لے کر گئے ہیں نہ شاپنگ پر۔‘‘۔۔۔’’خدا کا خوف کرو، پچھلے ہی ہفتے تو۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔۔۔’’کیا پچھلے ہفتے، سات دن ہوتے ہیں ہفتے میں گھر کا کھانا کھاکھا کر بور ہوگئی ہوں۔ مگر آپ کو میری پروا ہی کہاں ہے۔ذرا بھی پیار نہیں کرتے مجھ سے۔‘‘۔۔۔’’اُف! میں کہاں پھنس گیا۔‘‘شوہر کی منمناتی سی آواز نکلی اور سر پکڑ لیا۔’’کیا کہا؟ پھنس گیا۔یعنی آپ مجھ سے شادی کرکے پچھتا رہے ہیں؟؟؟‘‘۔۔۔۔۔۔’’نہیں یار، یہ بات نہیں ہے میرا مطلب یہ نہیں تھا۔‘‘۔۔۔’’جائیں میں آپ سے بات نہیں کرتی، چلی جاؤں گی امی کے۔‘‘اسی دوران ماں نے آواز دے لی۔’’پھر جم کے بیٹھ گیا بیوی کے پاس۔ کہا بھی تھا کہ کھانے کے بعد ذرا میری بات سننا۔‘‘اور پھر ماں کی اپنی بہو کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھل گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شادیاں خواتین کی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں۔ کیونکہ عورت ہی گھر بناتی اور عورت ہی گھر بگاڑتی ہے۔ چاہے وہ بہو کے روپ میں ہو یا ساس کے روپ میں۔اگر یہ دونوں خواتین چاہیں تو رشتے میں نفرت اور عدوات ختم ہوسکتی ہے اور اس کی جگہ محبت اور دوستی قائم ہوسکتی ہے۔ جو ان کی گھریلو زندگی پر خوش گوار گھریلو اثرات مرتب کرے گا۔ساس کو چاہیے کہ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے۔ جس طرح اپنی بیٹی کو تکلیف پہنچانے نہیں سوچ سکتی اسی طرح بہو کو بھی پریشان نہ کرے۔ ا س کی خطا ؤں پر درگزر سے کام لے۔گھریلو معاملات میں بہو کو بھی برابر کا شریک رکھے، یعنی ہر اہم مسئلے میں بہو سے بھی رائے لی جائے۔ تاکہ وہ خود کو گھر کا ایک فرد سمجھے۔اسی طرح بہو کو بھی بہت سی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد پر یکساں توجہ دینا چاہیے اور گھر والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

لیکن ایسے میں سب سے زیادہ کردار شوہر کا ہوتا ہے۔وہ وہی کرے جو ہمیشہ کرتا چلا آئے۔ یعنی خاموشی اختیار کرے کیونکہ ایک چپ سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔ یاد رکھیں کھانا ،پینا، کپڑا بیوی کا حق ہے اور اس حق کو خوش دلی کے ساتھ انجام دینا شوہر کا انتہائی خوش گوار فریضہ ہے۔ اس فریضے کو خوش اسلوبی سے نجام دینے سے نہ صرف دنیا میں خوش گوار زندگی بنتی ہے بلکہ انسان آخرت میں بھی اجروثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ کیونکہ آپ کی بیوی آپ کے بچوں کی آیا بھی ہے اور اُستانی بھی۔ وہ گھر کی مالی بھی ہے اور چوکیدار بھی اور آپ کی خزانچی بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ آپ کی نفسیاتی معالج بھی ہے۔ اگر آپ کو کسی قسم کی پریشانی ہوتو وہ آپ کے سا تھ اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ہمارا شوہروں کے لیے یہی مشورہ ہے کہ دونوں رشتوں میں توازن برقرار رکھے ،کبھی بھی بیوی کی باتوں میں آکر ماں سے بدتمیزی نہ کرے بلکہ بیوی کو حتیٰ الامکان پیار سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔اگر وہ نادانی کا مظاہرہ کرے تواپنی سمجھ بوجھ استعمال کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے اور انصاف اور برابری کا مظاہرہ کریں۔

اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان میں کامل ہے جو اہل خانہ کے ساتھ خوش اخلاقی،خندہ پیشانی اور مہربانی کا برتاؤ رکھے۔گھر والوں کی دلجوئی اور ہر ایک سے پیار محبت سے پیش آئے۔

 مزید جانئے :شادی کرنے والی ورکنگ ویمن یہ باتیں یاد رکھیں


!

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...