صحت کے 6موروثی و جینیاتی مسائل

893

موروثیت کا عمل نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں یہاں تک کہ پیڑ پودوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ جہاں انسان کے جینز سے کئی عادات، جسمانی ساخت اور دیگر خصوصیات اس کی اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، اسی طرح چند امراض بھی والدین سے بچوں میں منتقل ہوجاتے ہیں جنھیں موروثی امراض کہتے ہیں ۔ اکثر امراض کی وجہ کوئی بیرونی ایجنٹ ہوتا ہے جبکہ چند بیماریاں انسان کے ڈی این اے میں پہلے سے کوڈیڈ ہوتی ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ ڈی این اے کوڈ لازمی طور پر بچوں میں منتقل ہوکر ان بیماریوں یا صحت کے مسائل کا سبب بنے لیکن اس سے کئی امراض کے خطرات ضرور بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف جینیاتی امراض کا تعلق جینز یا جینیاتی معلومات سے ہوتا ہے ۔جینز ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتے ہیں جو کہ ایک خاص قسم کے پروٹین پیدا کرتے ہیں ۔ یہ پروٹین خلیات کو ماں باپ جیسے خلیات پیدا کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ خلیات جسم کو بتاتے ہیں کہ اسے کس طرح کام کرنا ہے ۔ جب نئے خلیات بنتے ہیں تو جینز کاپی ہوتے ہیں کبھی یہ جینز سہی طرح کاپی نہ ہو پائیں تو یہ جینیاتی مسائل کا سبب بنتے ہیں ۔ چند موروثی اور جینیاتی مسائل کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہے:

1۔امراض قلب

ذیابیطس، امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر دل کو بے حد نقصان پہنچاتے ہیں ۔ جب بچوں کے ماں باپ کو دل یا خون کی شریانوں سے متعلق امراض لاحق ہوتے ہیں تو ان بچوں میں دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کے دل میں کوئی نقص ہو تو ممکن ہے کہ وہ عضر بچے میں بھی منتقل ہو جائے ۔

2۔گنج پن

سائنس دان اب تک پتا نہیں لگا پائے ہیں ہیں کہ گنج پن یا بال جھڑ جانے کی اصل وجہ کیا ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے پیچھے چند جینیاتی نقص کارفرماہوتے ہیں جو ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہوتے ہیں ۔ ایک خاص قسم کا گنج پن جس میں جسم کے کسی بھی حصے پر بال نہیں آتے، بھی ایک جینیاتی عضر ہے ۔

3۔ایکنی

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بچے جنھیں اسکول کے زمانے سے کیل مہاسوں کی شکایت ہوتی ہے ان کی خاندانی ہسٹری میں ایکنی کا مسئلہ پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسان کے جینز طے کرتے ہیں کہ اس کے مدافعتی نظام میں جراثیم کے خلاف لڑنے کی کتنی طاقت ہوگی ۔ بلکہ تحقیق سے تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی جینز ہی طے کرتے ہیں کہ جسم کتنے مردہ خلیات پیدا کرے گا ۔

4۔نظر کی کمزوری

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک گھر میں سب ہی لوگوں کے چشمہ لگا ہوا ہے ۔ نظر کی کمزوری بھی ماں باپ کے جینز سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے ۔ اگر آپ کے خاندان میں اکثر افراد کو آنکھوں کے مسائل درپیش ہوں تو بچے کے پید ا ہونے کے ایک سال بعد سے ہی بچے کی آنکھوں کا باقائدگی سے چیک اپ کرانا شروع کردینا چاہیے ۔ اگر نظر کی کمزوری کا شروع میں ہی پتا چل جائے تو بر وقت دیکھ بھال سے اسے تیزی سے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے ۔

5۔ایگزیما

بچوں میں اس مرض کی منتقلی کے امکانات 50 50ہوتے ہیں ۔ ایکزیما ایک طرح کی جلدی الرجی ہوتی ہے ۔ سردیوں اور خشک موسم میں یہ الرجی شدت اختیار کرلیتی ہے ۔ اس کے علاوہ بعض لوگ ڈیری پراڈکٹس سے الرجی کے باعث اس کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بچوں میں ایکزیما کی علامت کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہوتا ۔ بچوں کے رخساروں، کہنیوں کے اندر اور گھٹنوں کے پیچے سرخ رنگ کے کھردرے دھبے پڑنے لگتے ہیں۔ اس میں خارش ہوتی ہے اور اگر یہ بڑھ جائیں تو پس بھی پڑ جاتا ہے۔اس سے بچنے کے لیے بچے کی جلد کو خشک نہ ہونے دیں ۔ جیسے ہی جلد پر ایسے نشانات پڑنا شروع ہوں تو ڈاکٹر سے معائنہ کرائیں ۔

6۔ مائگرین

اگر والدین میں سے کس ایک کو مائگرین کا مرض ہو تو بچوں میں بیماری کے منتقل ہونے کے خطرات 50فی صد جبکہ اگر دونوں کو یہ ہی مسئلہ ہو تو خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ بعض بچوں میں آٹھ سال کی عمر سے اور بعض میں تو اس سے پہلے سے اس مرض کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ بچوں کا مائگرین ایک اچھی نیند لینے سے عموماً دور ہو جاتا ہے ۔ اگر درد برقرار رہے تو کسی اچھے بچے کو اعصابی ماہر سے رابطہ کرنا مفیدہو گا ۔


دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال


تبصرے
Loading...