چائے دل، جلد اور دانتوں کے لیے مفید

2,587

تاریخ عالم میں بہت سی تہذیبیں ایسی ملیں گی جن میں چائے کو ایک کرشمہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہزاروں سال سے بدھ بھکشو مراقبے اور مذہبی رسوم کے دوران نیند بھگانے کے لیے چائے کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب پتا چلاہے کہ نیند بھگانے کی یہ خاصیت چائے میں کیفین کے باعث ہوتی ہے۔ کیفین چائے میں کافی کی نسبت آدھی ہوتی ہے۔

ان بھکشوؤں کا یہ بھی یقین تھا کہ چائے میں شفا بخش خصوصیات ہوتی ہیں۔ چنانچہ بدھ مت پھیلنے کے ساتھ ساتھ چائے کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا اور اس کی حمایت میں دعوے بھی بڑھتے رہے۔ تیرھویں صدی کے طاقتور فوجی آمرمینا موٹوسانے ٹومو جس کا تعلق جاپان سے تھا،جب بسیار خوری سے قریب المرگ ہوا تو بھکشوؤں نے دعا کے ساتھ ساتھ اسے یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ چائے استعمال کرے۔ جب یہ آمر صحت یاب ہوا تو اس کے ہم وطنوں کو چائے کی افادیت کا یقین ہوگیا۔

ولندیزی باشندے سترھویں صدی میں چائے کی پتی چین سے یورپ لائے اور یہ پتی عطاروں کی دکان میں فروخت ہونے لگی۔ اُنیس سو اکتالیس میں ولندیزی معالج نکولس ٹلپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’ چائے پینے والے افرادتمام روگوں سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔یہ جو بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں چائے کے استعمال سے لوگوں کی جان بچ گئی اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اُبلتا اور کھولتا ہوا پانی بیماری پھیلانے والے جراثیم مار ڈالتا ہے۔ اب محققین یہ معلوم کرنے میں مصروف ہیں کہ اس کی دیگر صحت بخش خصوصیات کی وجوہ کیا ہیں۔

چائے کی پتی گرم اور نیم گرم خطوں کے ایک ہمیشہ سرسبز رہنے والے یا سدابہار پودے سے حاصل ہوتی ہے جوCamellia sinensisکے سائنسی نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں چائے کی کم وبیش تین ہزار اقسام استعمال ہوتی ہیں۔ سب کی سب اسی پودے یا اس کے پیوندی پودوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان پتیوں کو توڑنے کے بعد پھر ان پر جو ترکیبی عمل ہوتا ہے اس کے ذریعے سے انھیں تین طرح کی بنیادی شکل دے دی جاتی ہے یعنی سبز،گہرا ملاجلا سیاہ و سبز اور سیاہ۔

ان تینوں اقسام کے صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان میں پولی فینولز نامی کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان مرکبات میں مانع تکسید فلیوونائیڈز ہوتے ہیں جو پھلوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ فلیوونائیڈز خلیوں کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور اس طرح ہمیں کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

پتا چلا ہے کہ سبز چائے میںEGCgنامی فلیوونائیڈہوتا ہے جو طاقتور(اینٹی آکسی ڈینٹ) مانع تکسید ہے۔ بعض سائنس دانوں کے مطابق کالی چائے میں بھی اسی طرح کی خصوصیات ہوتی ہیں جو بیماری کو روکتی ہیں البتہ محققین ابھی فیصلہ نہیں کرپا ئے ہیں کہ کیا چائے کی پتی سے کیفین نکال دینے کے بعد بھی اس کی صحت بخش خصوصیات باقی رہتی ہیں۔

ہالینڈ کے ایک تحقیقی جائزے کے مطابق جو لوگ دن میں سیاہ چائے کی چار پانچ پیالیاں پیتے ہیں ان کے لیے ان لوگوں کی بہ نسبت جو دویااس سے بھی کم پیالی روزانہ پیتے ہیں،فالج کاخطرہ تقریباً ستر فیصد کم ہوجاتا ہے۔انیس سو ترانوے کے ایک تحقیقی جائزے سے یہ نتیجہ نکالا گیا تھا کہ سیاہ چائے کا استعمال جتنا زیادہ ہوگا،دل کے مہلک دورے اتنے ہی کم ہوجائیں گے۔

اوہایو میں واقع یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ اگر سورج کی تپش سے جلدجل جائے تو اس پر سبز چائے کی ٹکور کی جائے۔ اسطرح نوے فیصد تکلیف جاتی رہتی ہے اور جلد کے سرطان سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔

چونکہ چائے میں فلورائیڈ بھی ہوتا ہے لہٰذایہ دانتوں کو مضبوط کرتی ہے اور دانتوں کو کیڑا لگنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ جاپان کے محققین نے یہ بھی بتا یا ہے کہ چائے دانتوں پرمیل کی تہ جمنے نہیں دیتی اور بعض ایسے جراثیم چائے سے ختم ہوجاتے ہیں جومسوڑھوں کو خراب کرتے ہیں۔


شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...