بچوں کی شخصیت کو کیسے سنواریں؟

579

بیش ترنوجوان مغربی اندازِ فکر سے متاثر ہوکر تیزی سے جرائم کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کے جرائم میں ملوث ہونے کے بے شمار عوامل ہیں جن میں اہم مسئلہ بچوں کی مناسب تربیت کاہے۔ بچے کی بنیادی تربیت میں اگر والدین توجہ دیں تو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گزرے وقتوں میں والدین کا بڑا رُعب ہوتا تھا۔ بچے خوف سے اور کچھ عزت و احترام کے سبب بات مانتے تھے مگر بدلتی قدروں نے جہاں والدین وہاں گھر کے بزرگوں کے احترام میں بھی کمی کردی ہے۔ مغربی تہذیب نے ایسے قدم جمائے ہیں کہ ہمارا تو اصل کہیں کھو گیا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کردی ہے جس میں مختلف چینلز کی بھرمار اور کمپیوٹر پر چیٹنگ شامل ہے۔ اب نئی نسل کو سنوارنے کے لیے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔

آپ بچے کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ اپنے ذہن میںآنے والا ہرسوال آپ سے بلا جھجک کرسکے۔انھیں ڈرانے،دھمکانے، مارنے، پیٹنے اور ڈانٹنے کے بجائے اسے مطمئن کریں۔ بچیوں کے معاملے میں بالخصوص ز یادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ایک تو لڑکیاں زیادہ حساس ہوتی ہیں،دوسرے محبت،چاہت سے کی گئی بات جلدی سمجھ لیتی ہیں۔ ہٹ دھرمی کا مادہ ان میں کم ہوتا ہے۔

رشتے داروں سے میل ملاقات بچوں کی شخصیت تعمیرمیں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ہمیشہ روشنی میں سفر کرواور زندگی کے تمام معاملات میں ایمانداری کو اپناؤ کیونکہ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔

بعض مائیں اپنے بچوں کو دوسروں کے سامنے شرمندہ کرتی ہیں یا پھر انھیں پاگل،اُلو،بے وقوف یا احمق کہہ کر پکارتی ہیں۔ اس سے بعض بچے منفی اثر لیتے ہیں۔ ان کا دوسروں پر اعتماد ختم ہوجاتاہے۔ اس قسم کے رویے سے ان پر کسی بھی قسم کی بات کا اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنے تمام محبت کرنے والے افراد سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کی توجہ منفی اور مایوسی پر مشتمل خیالات کی جانب مبذول ہوجاتی ہے اور وہ خودکوناکامیاب افراد سمجھنے لگتے ہیں۔

ان کے خیال میں وہ کسی بھی مقصد کوحاصل نہیں کرسکتے۔اگر ایسے بچوں کی مایوسی بڑھ جائے تو وہ خودکشی کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں یا مختلف جرائم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔آج کے جدید دور نے نوجوانوں کو بیک وقت بے شمار راستے دکھاکر اور امیدیں دلاکر کئی طرح سے مایوس کیا ہے۔

نوجوانوں کے محدود وسائل اور راستے کی مشکلات ان کی امیدوں کے آڑے آتی ہیں۔ درمیانی طبقے کے افراد زیادہ مایوس ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں تک ان کی رسائی ممکن نہیں۔ تعلیم مہنگی ہونے کے بجائے ان کی پہنچ سے دور ہورہی ہے۔بہتر ملازمت کا حصول خواہش بن کر رہ گیا ہے۔ بے روزگاری، غربت و افلاس کی وجہ سے افسردگی ومایوسی زیادہ افراد میں پھیلنے والی بیماری کے طورپر سامنے آئی ہے۔

دوسری طر ف کچھ ایسے افراد کا زیادہ امیر ہونا، ان کا دونوں ہاتھوں سے دولت لُٹانا، مہنگ گاڑیوں میں سفرکرنا،بیرونی ممالک کی درآمد شدہ اشیاء خریدنا،مہنگے ریستورانوں سے باہر گاڑیوں کا ہجوم اور مغربی طرزِ زندگی اختیار کرتے دیکھ کر کچھ لوگ وارداتوں کا آغاز کردیتے ہیں۔

انسان کے ذہنی ،جذباتی، اور نفسیاتی رویوں میں تبدیلی لمحوں میں نہیں آتی۔یہ سچ ہے کہ ایک فرد کبھی یکسانیت کو پسند نہیں کرتا۔ رویوں کی تبدیلی خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے اور منفی نوعیت کے معاملات بھی سامنے آتے ہیں۔

لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنی اقدار چھوڑ کر مغرب کی تقلیدمیں اندھا دھند دوڑ رہے ہیں اور اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کے لیے تیار ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مذہب سے روشناس کرائیں،انھیں وقت دیں اور ان میں بھرپور دل چسپی لیں تاکہ وہ بااعتماد شخصیت بن سکیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...