حمل سے متعلق10غلط فہمیاں
حمل سے متعلق بہت سی باتیں ہیں جو پرانے وقتوں سے چلی آرہی ہیں وہ تو بڑے بوڑھوں کی باتیں تھیں لیکن آج کے دور میں بھی حمل سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں مشہور ہیں ۔ جن میں چند کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے ۔ حمل سے متعلق کسی بھی غلط فہمی پر یقین نہ کریں اور ہر بات کے لیے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔
حاملہ عورت کو ڈبل کھانا چاہئے:
حمل کے دوران غذا میں کیلوریز کا اضافہ کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کی غذا ڈبل کردی جائے۔
اگر آپ متوازن غذا لیتی ہیں تو کیلوریز میں اضافے کی ضرورت نہیں اپنی غذا میں ۳۰۰ کیلوریز روزانہ کا اضافہ کریں ۔ یہ مقدار ۲ گلاس دودھ اور ایک پیالہ جوء کے دلیے سے حاصل ہوسکتی ہے۔
حمل میں پنیر نہ کھائیں:
کچے دودھ سے بنائے گئے پنیر میں (جو نرم ہوتا ہے) ایک بیکٹیریا لسٹیریاہوتا ہے جو فلو کی طرح ایک بیماری پیدا کرتا ہے جو بچے کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جو حمل گر جانے یا بچے کی موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حمل میں پیسچیورائزڈ ملک سے تیار کردہ پنیر کا استعمال کیا جائے چیڈر، موزریلا اور سوئس چیز صحت (health) کے لیے مضر نہیں اور ماں اور بچے کے لیے محفوظ ہیں۔
مصالحے دار کھانے پیدائش کو مشکل بناتے ہیں:
اس بات کا سائنس میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اس بارے میں یہ قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ مصالحے دار کھانے کھانے سے ہاضمے میں خرابی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے یوٹرس سکڑ جاتا ہے لیکن یہ صرف ایک قیاس ہے ۔ بہت سی خواتین دوران حمل مصالحے دار چیزیں کھاتی ہیں اور ان کے ہاں نارمل ڈلیوری ہوتی ہے۔
حمل میں کیفین کا استعمال نہ کریں:
یہ بات بھی صحیح نہیں آپ دوران حمل بھی چائے ، کافی، چاکلیٹ سے لطف اندوز ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس بات کاضرور خیال رکھیں کہ آپ دن میں کیفین کی کتنی مقدار لے رہی ہیں۔ حاملہ خواتین کو دن میں ۲۰۰ گرام سے زیادہ کیفین نہ لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس سے زیادہ مقدار حمل کے ضائع ہونے کا باعث بن سکتی ہے ۔
حمل میں ہوائی سفر نہیں کرنا چاہئیے:
یہ بات بھی صحیح نہیں، آپ حمل کے پہلے اور دوسرے تین ماہ میں سفر کر سکتی ہیں۔ حمل کے آخری تین ماہ میں بھی سفر کیا جاسکتا ہے لیکن بعض ائر لائنز حاملہ خواتین کو آخری تین ماہ میں سفر کی اجازت اس لیے نہیں دیتیں کہ کہیں انھیں جہاز میں لیبر پین نہ شرو ع ہوجائے۔
سینے کی جلن بچے کے بال بڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے:
یہ سالوں پرانی غلط فہمی ہے جو اکثر عورتیں آج بھی کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں حمل کے دوران ہونے والی سینے میں جلن بچے کے گھنے بالوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بچے کے بالوں کی افزائش کا تعلق ماں باپ کی موروثی خصوصیات سے ہوتا ہے ۔ سینے کی جلن ہارمون پروگسٹرون کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ ہارمون تمام مسلز کو سکون بخشتا ہے ۔ بچے کی نشونماء ہونے کی وجہ سے معدے کے ایسڈ ایسوفیگس تک آجاتے ہیں اور سینے کی جلن کا باعث بنتے ہیں ۔ کچھ اقدامات آپ کو اس تکلیف سے بچاسکتے ہیں۔
دل کی دھڑکن کی رفتار سے جنس کا پتا چلتا ہے:
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہونے والے بچے کی دل کی رفتار ۱۴۰ بار فی منٹ سے زیادہ ہے تو یہ بیٹی ہے اور اگر یہ ۱۴۰ سے کم ہے تو بیٹا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچے کی نارمل ہارٹ بیٹ ۱۲۰ سے ۱۶۰ کے درمیان ہوتی ہے اور کم زیادہ ہوتی رہتی ہے اور اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق نہیں ۔
ہوم ڈوپلر کا استعمال بچے کے لیے غیر محفوظ ہے:
بچے کے دل کی دھڑکن سننے کے لیے ہوم ڈوپلر کا استعمال غیر محفوظ نہیں ہے ۔ حمل کے ۱۴ ہفتے بعد بچے کی ہارٹ بیٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ہوم ڈوپلرکا استعمال کرنے کو صرف اس لیے منع کیا جا تا ہے کہ اگر بچے کے ہر طرح صحیح ہونے کے باوجود اس کے دل کی دھڑکن آپ کو نہ سنائی دے تو آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکتی ہیں۔
حمل میں بالوں کو رنگنا محفوظ نہیں :
دوران حمل بالوں کو رنگنا خطرناک نہیں اس کے لیے یہ بتایا جاتا ہے کہ ہئر ڈائی سے نکلنے والی بو سے متلی کی شکایت ہوسکتی ہے ۔ اس لیے ایسے کمرے میں بیٹھ کر کلر لگایا جائے جہاں ہوا کا اچھی طرح گزر ہو۔ اس کے علاوہ ہئر ڈائزکا بہت معمولی حصہ جلد میں جذب ہوتا ہے جو بچے کے لیے بالکل بھی نقصان دہ نہیں۔
پیٹ کا ابھار بچے کی جنس کا پتہ دیتا ہے:
لوگ کہتے ہیں پیٹ کا ابھار کم ہو تو یہ لڑکا ہونے کی نشانی ہے اور اگر آپ کے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں تو یہ بیٹی ہونے کی نشانی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بیٹی ماں کی خوبصورتی کم کردیتی ہے۔ یہ دقیانوسی باتیں ہیں۔ پیٹ کے ابھار کا دارومدار عورت کی جسمانی ساخت پر ہوتا ہے اگر وہ لمبی اور دبلی ہے تو اس کا پیٹ زیادہ ابھرا ہوا ہوگا جب کہ چھوٹے قد کی موٹی عورت کے پیٹ کا ابھار کم ہوگا ۔ دوسری طر ف دوران حمل ہارمونز کی تبدیلی کی وجہ سے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں اور یہ صحیح نہیں کہ آپ کی ہونے والی بیٹی نے آپ کی خوبصورتی چرالی ہے۔