رشتوں کی تلاش میں اندھااعتمادمسائل کا سبب بنتاہے

1,599

’’ارے جہاں آرا اس بار میں بہت اچھا رشتہ لے کر آئی ہوں، لڑکا بہت بڑی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ شکل و صورت بھی اچھی ہے۔ گھر میں صرف ایک بوڑھی ماں اور بیوہ بہن ہے۔ اگر ہماری ہماکی اس گھر میں شادی ہوگئی تو سمجھو نصیب کھل جائیں گے بچی کے!‘‘ رحمت بوا اپنا برقع سنبھالے پان منہ میں دبائے جلدی جلدی بول رہی تھیں۔

’’سچ بوا؟ اگر اپنی ہما کا یہاں بیاہ ہوگیا تو میں تمہیں نیا جوڑا اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبادوں گی‘‘جہاں آراخوش ہوکربولیں۔

اگلے وقتوں میں ایسا ہی ہوا کرتا تھا کہ محلے کیکوئی خالہ یا بواجگہ جگہ اپنی جوتیاں چٹخاتی پھرتیں اور اِدھراُدھررشتوں کی خبر دیتی تھیں۔ اس کام میں کبھی کبھار کسی کا رشتہ طے پاجاتا اوریوں شادی ہوجاتی تھی۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں آج بھی اکثر رشتے کچھ اسی طرح طے پاتے ہیں۔ آپ کی روز اخبار میں اس ا شتہارپرنگاہ ضرور پڑتی ہوگی کہ ’’ضرور ت رشتہ‘‘ نیک ہینڈ سم کنوارے لڑکے کے لیے 25 سال کی لڑکی کا رشتہ درکارہے یاپھر’’گرین کارڈ ہولڈر لڑکی کے لیے رشتہ درکارہے‘‘رنڈوے اورطلاق یافتہ بھی رجوع کرسکتے ہیں، لالچی نہ ہوں‘‘یہاں یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اخبار میں وہ خود ایک پرکشش اشتہار چھپواتے ہیں اوراس میں لڑکی کی مالی حیثیت کاچرچا کرتے ہیں اور خود ہی آگے وضاحت کرتے ہیں کہ ’’لڑکا لالچی نہ ہو۔‘‘بہرحال آج کل دیگرکاروبارکی طرح بہت سے لوگ بڑے پیمانے پریہ کام بھی کررہے ہیں ۔ اکثر اشتہارات میں یہ عبارت لکھی ہوتی ہے کہ ’’ہمارے ہاں مفت فی سبیل اﷲ رشتے کرائے جاتے ہیں‘‘مگرحقیقت وہاں جاکرہی معلوم ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے لیے رشتے ملنا ایک گمبھیر مسئلہ بنتا جارہا ہے اس لیے والدین مختلف میرج بیوروزسے رابطہ کرلیتے ہیں۔ رجسٹریشن فیس ادا کرکے وہ اپنی لڑکی کانام لکھواتے ہیں اور پھران کے گھر لڑکوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ ان میں کئی لڑکے دوسری یا تیسری شادی کی خواہش رکھتے ہیں یاپھر اپنی زندگی کی 60 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کے دعوے دارہوتے ہیں۔ کئی والدین جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں، اپنے لڑکے کی تعلیم،آمدنی، کردار اور ازدواجی حیثیت کے متعلق بھی غلط بیانی کرتے ہیں۔ اسی طرح کئی لڑکیوں کے والدین بھی فریب کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے رشتوں میں کوئی ایک فریق فراڈ ثابت ہوتا ہے۔
میر ج بیورو کا جواب ایک باقاعدہ کاروبار کی صورت اختیارکرگیاہے۔ اسی قسم کا گھریلو کاروبار نچلی سطح پر بعض خواتین نے بھی شروع کردیا ہے۔ وہ معاوضہ لے کر اپنے محلے اور خاندان کی لڑکیوں اورلڑکوں کے رشتے کراتی ہیں۔ عام طورپر رشتے کروانے کے لیے انہوں نے اپنی ایک خاص فیس مقرر کی ہوتی ہے۔ لیکن رشتہ اعلیٰ ہو، مثلاً بیرون ملک سکونت اختیار کرنے والے یا امیر گھرانے کا ہوتومقررہ فیس دگنی ہوجاتی ہے۔ گلی محلوں میں کرائے جانے والے یہ رشتے میرج بیوروز کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ’’سفارت کاری‘‘ کے فرائض انجام دینے والی خاتون اپنے معاوضے کے لالچ میں دونوں فریقین کی کم زوریاں یاخامیاں ایک دوسرے سے چھپاتی ہیں تو شادی کے بعد حقیقت کھلنے کی صورت میں دونوں خاندانوں کومسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد دونوں گھرانے رشتہ کرانے والی خاتون کو خوب بددعائیں دیتے ہیں اوربُرابھلا کہہ کر دونوں ہی حالات کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں یاپھر اس کا نتیجہ گھر ٹوٹنے کی شکل میں برآمدہوتاہے۔

رشتوں کے حوالے سے ہمیں اپنے سماجی طرزعمل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی کئی گھرانے اپنی برادری یا خاندان سے باہر رشتہ کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ رنگ، نسل ، زبان اور ذات برادری سے بڑھ کر اگراخلاقی قدروں کی پاس داری اور شرافت نفس کو معیار بنایاجائے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کئی خاندان مال و دولت کی ہوس میں اپنے بچوں کی زندگی داؤپرلگادیتے ہیں۔ شادی کو کاروبارسمجھنے یاجھوٹی خاندانی اناکا مسئلہ بنانے کے بجائے خالصتاً انسانی بنیادوں پردیکھنا چاہیے، اسی سے ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑسکتی ہے۔ اگر ہم خوداپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لے آئیں تو میرج بیورز کے نام پرلوگوں کوبے وقوف بنانے والوں کاکاروباربھی ختم ہوجائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...