ٹی بی کے بارے میں چند اہم حقائق
ٹیوبرکلوسس (ٹی بی ) یا تپ دق ایچ آئی وی/ ایڈزسے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا مرض بنتا جارہا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تپ دق کے باعث ہونے والی اموات کی تعدا د ایچ آئی وی کے علاوہ تمام وبائی امراض میں سب سے زیادہ ہے ۔ گزشتہ سال ٹی بی کے مریضوں میں بڑی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2014میں ٹی بی کے باعث 11لاکھ افراد جاں بحق ہو ئے جبکہ ایڈز کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد12 لاکھ ہے جن میں سے زیادہ تر افراد ایسے ہیں جو ایڈزکے ساتھ ساتھ ٹی بی کے مرض میں بھی مبتلا تھے ۔ ایچ آئی وی یا ایڈز کی وجہ سے انسانی ایمون سسٹم یا مدافعتی نظام تباہ ہونے لگتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹی بی کے کیسز میں اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریو ریوگلیون کا کہنا ہے کہ ایڈز کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کمی کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کی اس کے علاج تک رسائی آسان ہوتی جارہی ہے جس کے باعث کئی متاثرہ افراد اس مرض سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ٹی بی کے بروقت علاج سے بھی 2000سے اب تک 430ملین افراد کی جان بچائی جاچکی ہے لیکن باوجود اس کے ٹی بی کے باعث ہونے والی اموات میں اضافہ ادارے کے لیے کافی تشویش ناک ہے ۔
تپ دق ایک قدیم ترین بیماری ہے جو کئی دہائیوں سے صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہبنی ہوئی ہے ۔ ٹی بی یا تپ دق دراصل زیادہ تر غریب، پسماندہ علاقوں میں پائی جانے والی متعدی بیماری تصور کی جاتی ہے جومتاثرہ افراد کے کھانسنے اور چھینکنے سے دیگر انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس کا علاج مشکل ہوتا ہے، اس میں مہینوں تک اینٹی بیوٹک کا کورس کرنا پڑتا ہے۔ ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے چوں کہ انسانی مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اسی لیے پیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری تپ دِق با آسانی کسی انسان پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔
1921ء میں پیرس میں پہلی دفعہ ٹی بی کا حفاظتی ٹیکہ بی سی جی استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ضدِ سل ادویات دریافت ہوتی گئیں اور اس پر پوری طرح قابو پالیا گیا جس کے بعد ر یہ بیماری صد در صد قابل علاج قرار دی گئی۔ 1950 سے 1990تک ٹی بی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی مگر ایچ آئی وی/ایڈز بیماری پھیلنے کے بعد اس کی شرح میں اچانک تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا اور چالیس برس تک دبے رہنے کے بعدٹی بی نے پھر سے سر اٹھالیا۔
ٹیوبرکلوسس کی علامات میں بخار، خون کی کھانسی اور تھکاوٹ ہونا شامل ہے ۔ اس بڑھتے ہوئے مرض سے بچنے اور اس کے علاج کے لیے اس کے بارے میں چند حقائق جاننا بے حد ضروری ہے:
کمزور قوت مدافعت ٹی بی کی ایک اہم وجہ ہے
و ہ افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے ان کے ٹی بی میں مبتلا ہونے کے امکانات عام لوگوں سے بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ اکثر افراد کی موت کی وجہ ٹی بی ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ تمباکو یا سگریٹ نوشی بھی قوت مدافعت کو کمزور کردیتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے افرادکے لیے ٹی بی میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
دنیا کے کسی بھی ملک سے ٹی بی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو پایا ہے
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق2013 میں ٹی بی کے 80فی صد کیس بائیس ممالک میں رپورٹ کئے گئے جن میں سے60 فی صد کا تعلق مغربی بحر الکاہل ( چین، آسٹریلیا، ہانگ کانگ اور کمبوڈیا وغیرہ) اور جنوب مشرقی ایشیا سے ہے ۔ ٹی بی کے سب سے زیادہ نئے کیسز افریقی ریاست میں رپورٹ ہوئے ہیں ۔ بد قسمتی سے کوئی ملک ایسا نہیں جہاں ٹی بی کا مریض موجود نہ ہو ۔
اینٹی ٹیوبرکلوسس ڈرگ رزسٹنس صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے
ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی ایک خاص قسم کا ٹی بی انفکشن ہے جو ٹی بی کی دو انتہائی اہم ادویات ریفامپسینRMPاور آئسونائزڈ INH کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ WHO کے مطابق ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی کے مریض بھی دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔ ڈاکٹرز اس جراثیم کے جسم میں بننے کی وجہ ٹی بی کی ادویات کے ر نامناسب استعمال اور نامکمل علاج کو ٹہراتے ہیں ۔
ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس میں ٹی بی کے جراثیم ہوں وہ بیمار ہو
ٹی بی کا وہ جراثیم جو جسم میں پیدا تو ہو جائے لیکن انسان کو بیمار نہ کرے لیٹنٹ ٹی بی انفیکشن LTBIکہلاتا ہے ۔ ایسے افراد کو ٹی بی کی کسی بھی قسم کی علامات محسوس نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان سے انفیکشن دوسرے لوگوں میں منتقل ہو سکتا ہے ۔ البتہ LBTIسے متاثرہ افراد آگے چل کر ٹی بی مرض کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
کچھ لوگوں میں ٹی بی انفیکشن دیگر کے مقابلے زیادہ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے
ایسے لوگ جو ایڈز میں مبتلا ہوں، یا گزشتہ سالوں میں ٹی بی سے متاثر ہوچکے ہوں ان کے جسم میں ٹی بی کے جراثیم زیادہ آسانی سے منتقل ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ٹی بی کے مریضوں کو صحت یاب ہونے کے بعد بھی احتیاط اور مکمل چیک اپ کراتے رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ منشیات کے عادی افراد کے لیے ٹی بی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں ۔ دیگر ایسی بیماریاں جن میں انسان کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے ٹی بی کے خطرات کو بڑھادیتی ہیں ۔
بروقت اور مکمل علاج ٹی بی کے خاتمے کے لیے بے حد ضروری ہے
ٹی بی کے علاج کے لیے اب کئی قسم کی ادویات دستیاب ہیں البتہ ایک وقت میں ایک ہی قسم کی دوا کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اگر مریض ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی میں مبتلا ہو تو اسے دو یا تین قسم کی اینٹی بیوٹک دی جاتی ہیں ۔ ٹی بی کا علاج ادھورا چھوڑنا بے حد خطرناک ہوسکتا ہے ۔ ادویات کے کچھ ہفتے کے استعمال سے ہی اکثر مریض بہتر محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں اور ادویات کا استعمال چھوڑ دیتے ہیں ۔ ادویات کا کورس بیچ میں چھوڑد دینے کے باعث ٹی بی جراثیم دویات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور بعد میں ان پر ان دواؤں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
طویل علاج اور پرہیز اکثر انسان کو ذہنی دباؤ سے دوچار کردیتا ہے۔ جسمانی صحت کے ذہنی کارکردگی ا ور انسانی جذبات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے ۔ اگر ادویات پابندی سے لی جائیں اور مثبت سوچ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جائے تو اس مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ۔