پین کلرز لینے والے الرجی سے ہوشیار!
الرجسٹ ڈاکٹر ریاض حیدر کہتے ہیں،”الرجی کے عام محرکات یا وجوہات اسی قسم کی ادویات ،خاص طور پر اسپرن اور اینٹی بائیوٹک ہوتی ہیں ۔ اس قسم کی ادویات با آسانی ہر میڈیکل اسٹور پر دستیاب ہوتی ہیں اور ان کی خریداری کے لئے کسی بھی قسم کے ڈاکٹری نسخہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارا ہرروز اس قسم کے مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں اس قسم کی الرجی کے علامات موجود ہوتی ہیں ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکشر ڈاکٹر ان مریضوں کی میڈیکل ہسٹری جانے بغیر ان کو ایسی دوائیں د ے دیتے ہیں جن سے ان کو الرجی ہوجاتی ہے جو خطر ناک بھی ثابت ہوتی ہے۔”
ڈاکٹرز کے مطابق اینٹی بائیوٹک یاپین کلرز کے باکثرت استعمال سے بعض لوگوں کو انتہائی مہلک قسم کی الرجی ہوسکتی ہے جو خطرناک اورجان لیوا ہوسکتا ہے ۔مریض کو کسی بھی دوا سے الرجی ہوسکتی ہے ، اور بعض اوقات ان دواؤں سے ہونے والے ری ایکشن انہتائی خطرناک ہو سکتے ہیں خصوصناسلفا میڈیسین یا کاکس ٹوانہبیٹرزدوا سے اگر الرجی ہو تو اس کے ری ایکشن سے مریض کو سانس تک لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
اس صورت حال کواینا فلیکسس یا اینا فائی لیکٹک کے ردعمل کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور اس میں مریض کو فوری طور پر طبی امدا دکی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر امر نے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا” گزشتہ سال دبئی میں ایک فلپائنی خاتون نے ڈاکٹری نسخے کے بغیر ایک میڈیکل اسٹور سے کچھ اینٹی بائیوٹیک خرید کے کھا لی جس کے کچھ دیر بعد اس کو اس کا ری ایکشن ہونے لگا ،ابتداء میں جسم میں سوجن اور سیاہ دھبے ہونے لگے اسکے بعد گلے کی سوجن اور فلو میں مبتلا ہوگئیں ،ڈاکٹروں کے رپورٹ کے مطابق انہوں نے کو ایموکسی کلیو کیورین نامی اینٹی بائیوٹیک لی تھی جس میں زہریلے بکٹریاز موجود تھے جس کی وجہ سے اس دوا کا ری ایکشن جلد پر ہوا ۔وہ خاتون تقریباً ایک ہفتے سے زیادہ اس مرض میں مبتلا رہی۔اور اس کے بعد انتقال کر گئی۔یہ ایک انہتائی اہم معاملہ ہے ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر اس طر ح اینٹی بائیوٹک کا استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔
اس طر ح اینٹی باےؤٹک کے کثرتِ استعمال سے جراثیم ان کے عادی ہو جاتے اور یہی وجہ ہے کہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب یہ اینٹی بایوٹک اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں اور کسی بھی قسم کے انفیکشن کو روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور مرض پر قابو پانے یا مریض کو آرام پہچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مقدار استعمال کرنی پرتی ہے ۔جو مریض کے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ اگر اینٹی بائیوٹک کے اس طر ح بے جا اور غیرضروری استعمال کو نہ روکا گیا تو اس طرح کی الرجی کے زیادہ سے زیادہ کیس سامنے آئیں گے ،”لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے مسائل کا اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بغیرحل ممکن نہیں ہے جو کہ غلط سوچ ہے۔
خصوصا ان لوگوں کو جن کو دمے کا مرض ہے اس بات کو سمجھنا اور خیال رکھنا چاہیں کہ اس قسم کی ادویات ان لیے خطرناک ہوسکتی اور ان کو دمے کا اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔خصوصا اسپرن دمے کے مریض کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہوسکتا ہے کہ اس قسم کی ادویات سے پہلی بار میں دمے کے مریض یا کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مستقبل میں بھی یہ محفوظ ہی رہیں گے۔
ڈاکٹروں کے مطابق وہ ادوایات جو عام طور پر بن بخار میں استعمال کی جاتی ہیں جیسے( بروفن،ایول وغیرہ)یانان اسٹیورائڈز،اینٹی انفلیمیٹری میڈیسن دمے کے مریضوں کے لئے خطرناک ہو سکتی ہیں ان کے استعمال سے شدید دمے کاحملہ ہوسکتا ہے۔ان کی طرف سے ان ادویات کا گریز کیا جانا چاہیے۔ ان ادوایات کا استعمال دمے اور الرجی کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے اس بات کا انحصار خاندانی پس منظر پر بھی ہوتا ہے یعنی آپ کے خاندان میں اگر کسی کو دمے کی یا کسی خاص دوا سے کسی قسم کی الرجی ہے تو شاید اس کا اثرآپ پر بھی پڑسکتا ہے۔
میڈیکل میں کوئی ایسا ٹیسٹ موجود نہیں جس سے اس بات کو معلوم کیا جا سکے کہ آپ کی جلد یاخون کو کس دوا سے الرجی ہوسکتی ہے ۔البتہ جلد کے ماہرین جلد کا ٹیسٹ کر کے معلوم سکتے ہے جوکہ علاج اور ادوایات دینے میں مدد گار اور بہترین ثابت ہوسکتی ہے۔
ادویات جن سے الرجی ہونے کا خطرہ ہے
۱۔ پینسلین
۲۔اینٹی بایوٹک جس میں سلفونامائیڈزشامل ہوتا ہے
۳۔اسپرین اور دیگر پین کلرز
۴۔آئیوبروفین
۵۔ایڈول
۶۔موٹرین
۷۔نے بروکسن (درد اور سوجن کے علا ج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات )
۸۔پیراسیٹامول
الرجی ہونے کی علامات
۱۔جلد پر خراشوں کا پڑنا اور کھجلی ہونا۔
۲۔حلق میں کھر کھڑاہٹ ہونا،جکڑن محسوس ہونا اور سانس لینے میں دشواری ہونا۔
۳۔بلڈ پریشر کا تیزی سے کم ہونا اوراچانک بے ہوش ہوجانا ۔۔
۴۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہوجانا۔۔
۵۔ چہرے ،زبان اور ہونٹوں پر سوجن ہوجانا۔