غیر معمولی صفائی بھی الرجی کا سبب بن سکتی ہے
ہم آج تک یہ ہی سنتے آئے ہیں کہ صفائی حفظانِ صحت کے اصولوں میں سرِ فہرست ہوتی ہے۔مگر تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور نت نئی جدید تحقیقات نے ماضی کے بہت سارے اصولوں کو غلط نہیں تو کسی حد تک مختلف ضرور ثابت کیا ہے ۔حال ہی میں ہونے والی ایک جدید ریسرچ میں حد سے زیادہ احتیاط پسند افرادکے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ۔اس ریسرچ کے مطابق بہت زیادہ صفائی بھی الر جی کا سبب بن سکتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک حیرت انگیز تحقیق ہے مگر ریسرچرز نے ٹھوس اعداد و شمار جن میں الرجی کے مریضوں بالخصوص ہائجین ہائپوتھیسس کی شکایت میں اضافہ ہونا ہے۔تحقیق میں ڈاکٹر ز اور ماہرینِ خوراک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ سے ایسے مریضوں کی تعدادمیں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے جو اپنے نظامِ زندگی میں حفضانِ صحت کے اصولوں کے حوالے سے بے حد محتاط رہتے ہیں ۔
حیرت انگیز طور پر مریضوں کی ایک بڑی تعداد الرجی کا شکار ہوتی ہے ۔اس تحقیق میں یو اے ای کے مختلف ہسپتالوں کے پیش کردہ اعدادو شمار کے حوالے سے ثابت کیا گیا کہ الرجی کے ایسے مریضوں کی تعداد میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 60فیصد تک اضافہ ہوا ہے ۔ان مریضوں کی بہت بڑی تعداد فوڈ الرجی کا شکار ہوتی ہے یہ بات طے ہے کہ الرجی کسی نہ کسی مخصوص وجہ کے باعث ہوتی ہے اور یہ ہمارے امیون سسٹم یا مدافعتی نظام کے لئے ناخوشگوار وقت ہوتا ہے ،الرجی ہمارے روزمرّہ معمولات ،ہماری خوراک اور ہمارے اردگرد کے ماحول میں موجود کسی بھی اثر انگیز عنصر کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ریسرچرز کے مطابق ڈاکٹرز الرجیز کی کوئی حتمی وجہ طے کرنے میں تا حال ناکام ہیں جن سے ماہرین کو مستقبل میں اس سے نبرد آزما ہونے میں آسانی رہے گی ۔ہائی جین تھیوری کو اس حد تک ضرور تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس میں ایسے مریضوں میں تیزی سے اضافے کی نشاندہی کی ہے اور اس سے پہلی دفعہ یہ جانچنے میں مدد ملی ہے کہ لوگوں میں ہائی جین کی سطح کا کوئی معیار طے ہونا چاہیے ،کیونکہ جیسے ایک اینٹی بایوٹک کا حد سے زیادہ استعمال صحت کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ،اسی طرح ہائی جین کی سطح اور انسانی جسم کے مابین ایک ربط ہونا چاہیے ۔
اس تھیوری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حد سے زیادہ صفائی ستھرائی کے باعث ہمارا مدافعتی نظام اس طرح سے نشونما نہیں پاسکا جیسا کہ ہمارے بچپن کے دور سے ہی مضبوط ہونے کے لئے ضرورت تھی ۔ایک مصنوعی ماحول میں پرورش کسی بچے کے لئے تباہی سے کم نہیں ہوسکتی ،ریسرچرز کا یہ کہنا ہے کہ کیونکہ ہمارے اردگرد ہمیں ایک انتہائی صاف ستھرا ماحول ملا اس لئے ہمارے جسم میں موجود اچھے بیکٹیریا ز کو خوراک کے لئے خراب بیکٹیریا ز اور جراثیم نہیں مل پاتے ا س لئے اچھے بیکٹیریا اس قدر طاقتور نہیں ہوسکے جس قدر ان کے طاقتور ہونے کی ضرورت تھی ۔شاید ہم میں سے بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہمارا مدافعتی نظام کی نشونما اور اسے توانا بنانے کے لئے ہمارے اچھے بیکٹیریا ز کوچند جراثیمکی ضرورت ہوتی ہے۔
دیگر وجوہات
حد سے زیادہ محتاط طبیعت اور صفائی کا جنون بھی الرجی کی واحد وجہ نہیں ہوتی عام طور پر ہمارے جسم کا مدافعتی نظام خراب بیکٹیریاز اور جرثوموں کے ساتھ دشمن قوتوں کی طرح لڑتا ہے تاکہ ہم محفوظ رہ سکیں ۔تاہم الرجی کے شکار افراد میں مدافعتی نظام انتہائی حساس ہوجاتا ہے اور وہ اس عنصر یا چیز کو دشمن قوت تصور کر لیتا ہے جو کہ الر جی کا سبب ہوتی ہے ،جس سے اینٹی باڈیز جنم لیتی ہیں ،اور یہ اینٹی باڈیز جسم میں موجود مخصوص سیل یا خلیے سے منسلک ہو جاتی ہیں،جس کے نتیجے میں مختلف کیمیکل کا اخراج ہونے لگتا ہے یہ تمام علامات الرجی کے شکار کسی بھی شخص کی ہو سکتی ہیں ۔
ایک دوسری تحقیق کے مطابق جراثیم کش ادویات کا استعمال کرنے والے افراد یا کھیتوں میں کیمیائی کھاد کا استعمال بھی فوڈ الرجی میں اضافے کا سبب ہیں ۔ماہرین کے مطابق کیمیائی کھاد میں موجود کیمیکل بعض اجناس کے ذائقے اور معیار میں تبدیلی کا سبب بنتے ہیں ۔ہمارا آج کل کا موجودہ نظامِ حیات یا طرزِ زندگی جس پر فاسٹ فوڈز یا فروزن فوڈز کا غلبہ ہے یہ الرجیز کا سبب بھی بنتے ہیں ،مضرِ صحت خوراک اور اس کے ساتھ اینٹی بایو ٹک اور پین کلرز ادویات کا حد سے زیادہ استعمال اور وہ بھی اس ایک ایسی صورت حال میں جب کہ آ پ شدید دباؤ کا شکار یا ذہنی طور پر پریشان ہوں یہ سب ہمارے خودکار مدافعتی نظام کے قدرتی بیکٹیریل فلورا کو کمزور کرتا ہے 80فی صد سے زیادہ ہمارے مدافعتی نظام کا تعلق نظامِ انہظام سے ہوتا ہے ۔
مزید جانئے : کچن کی اہم اشیاء کی صفائی کے ٹوٹکے
اس لئے بہتر صحت کے لئے سود مند اور سادہ غذائیں استعمال کریں یہ نہ صرف الرجی بلکہ تمام امراض سے بچاؤ کے لئے فائدے مند ہوتی ہے۔ ایک اور تھیوری میں کہا گیا ہے کہ شہری آبادیوں میں تیز رفتاری سے ہونے والا اضافہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے ۔جس کی وجہ سے الرجی کے امراض میں بے پناہ اضافہ ہو رہاہے۔الرجی کی دیگر وجوہات میں موروثی طور پر کسی وائرس سے بھی متاثر ہونا بھی بتایا گیا ہے ۔ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں بالخصوص بچوں کو باہر کچھ وقت ضرور گزارنا چاہیے تاکہ وٹامن ڈی کے ذریعے ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہو سکے۔