ہرنیا : اسباب،علاج اور احتیاط

61,854

دنیا میں پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہرنیا بھی ہے۔یہ ایک عام بیماری ہے۔یہ زیادہ تر پیٹ کے مختلف حصوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں پیٹ کے کمزور حصے سے انتڑیاں یا دیگر اعضاء مثلاً پیٹ کی اندرونی چربی وغیرہ پیٹ کے باہر خارج ہو کر جلد کے نیچے ایک تھیلی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور لیٹنے یا آرام کرنے سے خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد یہ تھیلی سوج کی شکل میں مستقل موجود رہتی ہے اور تکلیف دہ صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بیمار ی کے دوران درد اور سوجن دور کرنے والی مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔

ہرنیا پیدائشی طور پر بھی ہو سکتا ہے۔ پیٹ کے کسی بھی آپریشن میں پیپ پڑنے یا اندرونی ٹانکے ٹوٹنے سے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ سے بھی ہرنیا ہو سکتا ہے۔ چھوٹے بچوں میں ناف اور پیٹ کے نیچے ہرنیا ہو سکتا ہے۔ ہرنیا کی بیماری کے شکار افراد خاص طور سے خواتین ضرورت سے زیادہ وزن اٹھالیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی کھال کے نیچے کسی شئے کے جمع ہوجانے کی بنا پر کچھ اپھارہ یاسوجن پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات عضلاتی ریشوں کے درمیان خفیف روزن پڑجاتے ہیں اور ایسے کمزور مقامات پر اور پیٹ کے نچلے رانوں سے قریب پوشیدہ حصے وغیرہ پر بوجھ اور دباؤپڑنے لگتا ہے ایسی صورت میں کسی بے ساختہ حرکت اور یا پھروزنی شئے اٹھانے یا محض کھسکانے سے عضلاتی روزن پھیل کر بڑھ جاتے ہیں پھر مرض ہرنیا میں مبتلا ہونا یقینی ہے بعض خواتین کپڑوں کو دھوکر پھر وہی بھیگے کپڑوں کا وزنی ٹوکرا ایک جگہ سے دوسری جگہ یا چھت وغیرہ پر لے جاتی ہیں، تب جسم میں عجیب سی تکلیف و حرارت پیدا ہوتی ہے، پیٹ کے نچلے حصے پر درد اور رفتہ رفتہ مرض ہرنیا کی شکایت بڑھتی جاتی ہے۔

وقتاً فوقتاً مردوں کوکم وبیش چالیس کلو وزن اور خواتین کو کم وبیش بیس کلو وزن اُٹھانا چاہیے۔ مسلسل کام کے عادی افراد کے کم وبیش وزن اُٹھانے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن خواتین کو زیادہ بوجھ اُٹھانے سے ہرنیا کے علاوہ حیض بار بار آنے اور ان اوقاتوں میں پیٹ میں شدید درد محسوس ہوتا رہتا ہے۔ حمل کے دوران میں زیادہ وزن وغیرہ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور زیادہ محنت ومشقت ایک تندورست وتوانا افراد کو اختلاج قلب راعشہ تھکان اور سر چکرانے کے عارضوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔یہ تمام علامات جسمانی مشقت کا طبعی اور لازمی نتیجہ ہیں۔ عرصے تک متواتر بوجھ اٹھانے سے قلب کے عضلے پھیل جانے کا سخت اندیشہ بھی رہتا ہے اور زیادہ بوجھ وغیرہ اٹھانے سے کمر اور ریڑھ کی ہڈی اور منکو ں پر سخت بار پڑنے لگتا ہے۔اور( منکے پھٹ بھی سکتے ہیں ) جس کی وجہ سے کمر کی تکلیف میں اور کمر سے نیچے دونوں پیروں میں اور تمام رگوں میں کھنچاؤ رہتا ہے جو خواتین کھڑے ہوکر گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ہیں ان کی کمر، دونوں پیروں کے تلوے جلن کے شکار رہتے ہیں اور تلوے بالا آخر زمین کے سطح سے لگ جاتے ہیں، یعنی تلوے سپاٹ ہوجاتے ہیں اور خصوصاً کم عمر بچوں کو ضرورت سے زیادہ وزن اُٹھانے سے باز رکھنا چاہیے، ورنہ انھیں بھی ہرنیا ہوسکتا ہے۔

ہرنیا کی بیماری کے علاج کے لیے سرجری بہترین علاج ہے۔ ہرنیا کی بیماری کے لیے مریض مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرکے نہ صرف اپنے آپ کو بیماری کی پیچیدگیوں سے بچا سکتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے آپریشن کی کامیابی کے بھی سو فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

*وزن میں کمی کی جائے۔

*مرغن غذاؤں سے پرہیز کیا جائے اور سا دہ غذائیں سبزیاں اور سلاد زیادہ استعمال کیے جائیں۔
*سگریٹ نوشی، شراب نوشی سے پرہیز کیا جائے۔
*کھانسی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کیا جائے۔
*ذیابیطس کی صورت میں اسے کنٹرول کیا جائے۔

ہرنیا کا آپریشن بہت آسان اور سادہ ہے۔ مریض کو آپریشن کے بعد صرف ایک یا دو دن ہسپتال رہنا پڑتا ہے جبکہ بعض حالتوں میں صحیح آپریشن کر
کے شام کو مریض کو بحفاظت گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ آپریشن کے بعد مریض ایک ماہ تک زیادہ دیر جھک کر کام نہ کرے۔ چھ ہفتے بیٹھ کر نماز پڑھے اور تین چار ماہ تک زیادہ مشقت کے کام سے بچے۔

ہرنیا کے مریض یہ غذائیں استعمال کر کے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

* مختصراً چھان ملے آٹے کی روٹی استعمال کرنا یا چھان کی براؤن ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ لینا۔ کھانے کے ساتھ سلاد کا وافر استعمال( تقریباً 1/3 حصہ سلاد کا ہونا) ضروری ہے۔ کھیرا، مولی اور گاجر بہترین ہیں۔ اگر انھیں کدوکش کرکے دسترخوان کی زینت بنایا جائے تو بہت بہتر ہے۔
*سلاد کے سبز پتے اور ٹماٹر بھی بہت مفید ہیں۔ خوراک کے وقفوں میں پانی کی خاصی مقدار پی جائے۔ دوپہر کو موسمی پھل امرود، خربوزہ، کیلا، سنگترہ اور سیب نمک لگا کر کھانے سے قبض کو دور کرنے میں مدد گار بنتے ہیں۔ صبح و شام چائے یا دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی، بسکٹ یا رس لیے جائیں۔ روٹی( صرف دوپہر کے کھانے پر 189 حصہ چپاتی) شوربے میں بھگو کر کھائی جائے۔ کھانا خوب چبا کر کھایا جائے کیونکہ معدے کے دانت نہیں ہوتے۔ دیگر سخت قسم کی ہر طرح کی خوراک بھنے چنے، مکئی، تلی ہوئی ہر شے، پکوڑوں سے جان بچانی ضروری ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...