عورتوں پر تشدد پاکستان سمیت دنیا بھر کا ایک اہم مسئلہ!

1,498

پا کستان سمیت دنیا بھر میں پچیس نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایاگیا۔قوانین کے باوجود دنیا بھر میں خواتین تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا تھا ۔ تاہم بیس سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی تین میں سے ایک عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کر رہی ہے ۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 700ملین سے زائد خواتین دنیا میں ایسی ہیں جن کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی گئی ۔ کئی ممالک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ 40فی صد عورتیں جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ کسی قسم کی مدد نہیں لیتیں ۔ جو مدد مانگتی بھی ہیں وہ بھی گھر والوں اور دوستوں سے ہی بات کرنا چاہتی ہیں نہ کے کسی فلاحی یا حکومتی ادارے سے ۔
پاکستان میں گزشتہ 5برس میں 15ہزار خواتین تشدد سے لقمہ اجل بن گئیں ۔ایک فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2015میں دس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔کم عمری میں زچگی یا تیزاب پھینکنے کے باعث جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس سال 860 کیسزکارو کاری کے ، 481گھریلو تشدد ،90تیزاب سے جلانے کے، 344 زیادتی اور 268کیسز جنسی طور پر ہراساں کرنے کے رپورٹ کیے گئے ۔ صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں شامل 140ممالک میں پاکستان کا نمبر 115واں ہے ۔

تشدد کی اقسام

خواتین پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ اس کی اقسام اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے مختلف تجزیہ نگاروں نے مختلف آراء کااظہار کیا ہے ۔ ہر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی نوعیت منفردہوتی ہے ۔ اس پر ثقافتی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ تشدد کی تین بنیادی اقسام ہیں:جنسی، ذہنی اور جسمانی۔ دیگر اقسام میں گھریلو تشدد، گریلو بدسلوکی اور ازدواجی عصمت دری شامل ہیں ۔ پاکستان اور دیگر کئی معاشروں میں کاروکاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کردینا،شوہر اور سسرال والوں کی جانب سے تشدد، تیزاب پھینک دینا یا گھریلو اختلافات میں عورت کو جلا دینا تشدد کی عام پائی جانے والی اقسام ہیں ۔بعض اوقات روز مرہ کا تشدد ایسی عورتوں کو خودکشی جیسے سنگین راستے کو اپننانے پر بھی مجبور کردیتا ہے ۔ کاروکاری ملک کے کئی حصوں میں ایک عام روایت ہے جسے اس علاقے کی انتظامیہ اور پنچائتوں کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1998سے 2004کے دوران 2800خواتین کاروکاری کے نام پر ہلاک کی گئیں ۔ اسکول ، کالجوں ، دفتروں اور بازاروں میں خواتیں کو ہراساں کرنے سے متعلق بدقسمتی سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

تشدد کی وجوہات

عورتوں پر تشدد کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔تعلیم کی کمی اس قسم کے واقعات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے ۔ غربت ، سماجی اقدار وروایات، مذہبی انتہا پسندی اور جنسی تعصب چند ایسے عناصر ہیں جو عورتوں پر تشدد کا باعث بنتے ہیں ۔ کئی گھرانوں میں بیٹے کی پیدائش کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ بیٹی کی پیدائش پر عورتوں کو نہ صرف شوہر اور سسرال والوں کے طعنوں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے۔ اسی طرح پسندکی شادی کرنے یا صرف شقوق کی بنیاد پر غیرت کا نام لے کر عورتوں پر تشدد کرنا یا انہیں قتل کردینا بھی ایک عام روایت ہے ۔ جائداد کے تنازعات اور خاندانوں میں لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک خاندان کی کم عمر لڑکی کی شادی دوسرے خاندان کے عمر رسیدہ فرد سے کرادی جاتی ہے ۔ جائداد میں حصہ دینے کے ڈر سے لڑکی کی شادی قرآن سے کرادینا بھی ایک ایسا جرم ہے جو کئی قبائلی علاقوں میں جاری ہے اور جس پر حکومت بے بس نظر آتی ہے۔

مسائل کا حل

کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے حکومتی اور سماجی سطح پر اس مسئلے پر کھل کر بات کرنا اور اس سے متعلق ضروری معلومات کا فروغ ضروری ہے ۔ انسانی حقوق کے نمائندوں اور ماہرین یہ باور کرتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔تعلیم کو عام کرکے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے ۔ نہ صرف جنسی اور جسمانی تشدد بلکہ ذہنی دباؤ اور تشدد کا بھی اعتراف کرنا اہم ہے ۔ حکومتی سطح پر عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام، قانون سازی اور ان کے نفاذ کے بغیر خواتین کے خلاف تشدکو روکنا ممکن نہیں ۔ ہمارا نصاب بھی ایسا ہونا چاہیے جس میں ہمیں بار بار یہ بتایا جائے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات ہونا ضروری ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...