
رنگوں سے علاج اور ان کے اثرات
رنگوں کی بھی زبان ہوتی ہے۔ان کے اثرات ہوتے ہیں۔اثرات اچھے بھی اور برے بھی، مثبت بھی اور منفی بھی۔اگر رنگوں کی قوت کا اندازہ مقصود ہو تو کسی مصروف چوک کے قریب جاکر دیکھ لیجیے ٹریفک پولیس کے اشارے لگے ہیں اور وہاں رنگوں کی حکومت ہے۔ سرخ اشارہ چلتی گاڑیوں کو روک دیتا ہے اور سبز اشارہ گاڑی کو چلنے کی اجازت دیتا ہے ۔کالا رنگ غم، گلابی محبت، پیلا بیماری اور سفید امن کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ ان رنگوں میں واقعی تاثیریں ہیں۔ حکماء اکثر کمزور نگاہ والے مریضوں کو سبزہ دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ سبزہ دیکھنے سے آنکھوں میں تراوٹ پیدا ہوتی ہے اور بینائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنکھوں کا آپریشن کرنے کے بعد آئی اسپیشلسٹ سبزرنگ کی پٹی مریض کی آنکھ پر باندھ دیتے ہیں۔ اسی طرح کتے کے کاٹے مریض کے لیے نیلارنگ دیکھنا مفید قرار دیا جاتا ہے۔پرانی تہذیبیں جس میں چین اور مصر شامل ہیں‘ کلر تھراپی یعنی رنگوں سے علاج کرتی رہی ہیں اور رنگوں کو استعمال اکر کے مریض کو سکون پہنچاتی رہی ہیں۔ رنگوں سے علاج کو ’’کروموتھراپی‘‘ کہا جاتاہے،اسے لائٹ تھراپی کے نام سے بھی پکا جاتا ہے اور موجودہ دور میں بھی ان سے علاج کیا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین رنگوں کی شعاعوں کو جسم کے انھی حصوں پر ڈالتے ہیں جن کا علاج کرنا ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ رنگ انسانی جسم کی فعالیت کو تیز اور بعض حالتوں میں کم کر کے متاثرہ حصے کو سکون دیتے ہیں۔ ان کا انحصار رنگ پر ہوتا ہے۔ بہت سے ماہرین اور معالجین نے رنگوں کو متبادل علاج کے طور پر استعمال کیا اور یہ نوٹ کیا کہ ان میں انسانی جسم اور ذہن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ رنگ یاروشنی سے امراض کا علاج اس قدر آسان ہے کہ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتاہے۔ اس علاج میں وقت بھی کم صرف ہوتاہے ، خرچ بھی کچھ نہیں ہوتا اور دوائیں ہمیشہ تازہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔
پہلاطریقہ:
جس رنگ کی ضرورت ہوا س رنگ کی ایک بوتل بازار سے خرید کر پہلے اسے ٹھنڈے پانی سے اورپھر گرم پانی سے اچھی طرح صاف کرلیناچاہیے، تاکہ بوتل کے اندر کی سطح میں کسی قسم کا میل باقی نہ رہے۔ اگربوتل کے اوپر کوئی لیبل یا کاغذ وغیرہ لگاہواہواسے بھی دورکردینا چاہیے۔ شیشی کو صاف کرنے کے بعد اس میں آبِ مقطر(DISTILLED WATER)اس طرح بھرنا چاہیے کہ بوتل یا شیشی کا ایک چوتھائی اوپری حصہ خالی رہے۔ اس بھری ہوئی بوتل یا شیشی کو لکڑی کی میزیا چوکی پر ایسی جگہ رکھنا چاہیے جہاں صاف اورکھلی ہوئی دھوپ ہو۔ اگر بازار میں مطلوبہ رنگ کی بوتل یاشیشی فراہم نہ ہوسکے تو صاف پکّے شیشے کی سفید بوتل خرید کر اس پر ٹرانسپرنٹ کا غذاس طرح چپکا دیا جائے کہ بوتل اوپر ، نیچے اور اطراف میں کاغذ کے اندر آجائے۔ ٹرانسپرنٹ سے مراد وہ کاغذہے جو اگر بتیوں وغیرہ کے پیکٹ پر خوبصورتی کے لئے لگایا جاتاہے۔ اگرایسا کاغذ دستیاب نہ ہوتوٹرانسپرنٹ پلاسٹک شیٹ سے بھی کام لیا جاسکتاہے۔
* ایک چوتھائی خالی بوتل چھوڑ کر پانی کو بوتل میں دھوپ میں چاریا چھ گھنٹہ تک رکھا جائے۔ پانی تیارکرنے کا بہترین وقت دن میں دس گیارہ بجے سے چار بجے تک ہے۔ پانی تیارہونے کی شناخت یہ ہے کہ بوتل کے خالی حصّے پر بھاپ کی طرح کچھ بوندیں جمع ہوجاتی ہیں۔
*ایک شیشی کو دوسری شیشی کے قریب اس طرح نہ رکھیں کہ ایک شیشی کا سایہ دوسری شیشی پرپڑے۔
* جس مقام پر شیشیاں رکھی جائیں وہاں کسی قسم کا گردوغبار یا دھواں نہیں رہنا چاہیے۔ شیشیوں کے اوپر کارک مضبوطی سے لگا رہناچاہیے۔
دوسرا طریقہ:
برسات کے دنوں میں جب کہ سورج کبھی نکلتاہے اور کبھی ابرمیں رہتاہے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس رنگ کی ضرورت ہواسی رنگ کی بوتل میں شوگر آف مِلک کی دوگرین کی ٹکیاں حسبِ قاعدہ بھر کر متواتر پندرہ یوم یا ایک ماہ تک روزانہ چھ گھنٹہ دھوپ میں رکھی جائیں۔ درمیان میں ہر چوتھے روزانھیں ہلاتے رہیں تاکہ گولیوں میں سورج کی کرنیں خوب اچھی طرح جذب ہوجائیں۔ پندرہ روزکے بعدان گولیوں کوبطور دواستعمال کیا جاسکتاہے۔
تیسرا طریقہ:
کمرے کے کے اس رُخ پر جدھر سے دھوپ آتی ہو، مختلف کھڑکیوں میں مختلف رنگ کے شیشے لگو ادیے جائیں اور ان پر پردہ کھینچ دیں مریض کو اس کمرے میں آرام دہ بستر پر لٹاکر تمام دروازے اورکھڑکیاں بندکرکے کمرے میں اندھیراکرلیاجائے۔ اب مریض کو جس رنگ کی ضرورت ہے اس رنگ کے شیشہ والی کھڑکی سے پردہ ہٹادیاجائے تاکہ سورج کی روشنی اس مخصوص رنگ کے شیشے سے گزرکر اندر آئے۔ اس طرح کمرے میں صرف وہی روشنی باقی رہے گی جس کی مریض کو ضرورت ہے۔ مثال کے طورپر ایک بخار کے مریض کو ایسے کمرے میں لٹاکر نیلے شیشے والی کھڑکی کے پردے ہٹادیں اور مریض کو اس رنگ کی روشنی میں دو تین گھنٹہ تک رہنے دیں۔ ہر نصف گھنٹے کے وقفے سے تھرمامیٹر کی مددسے اس مریض کا درجۂ حرارت دیکھتے رہیں تو آپ کو معلوم ہوگاآہستہ آہستہ مریض کا بخار کم ہوکر بالکل اترگیاہے۔
چوتھا طریقہ:
رات کے وقت اس علاج کاطریقہ یہ ہوگا۔ ایک ٹیبل لیمپ اسٹینڈ پر اس طرح فٹ کیا جائے کہ بلب کی روشنی مریض کے پلنگ پر اس جگہ پڑے جس جگہ روشنی کی ضرورت ہے۔ مطلوبہ رنگ کا بلب لے کر روشنی کردیں اور مریض کو اس روشنی میں لٹادیں۔
پانچواں طریقہ:
ڈیڑھ فٹ کا ایک بکس بنوالیا جائے جس میں چاروں طرف سے اس طرح کے خانے بنائے جائیں کہ ان میں مرضی کے مطابق جس رنگ کا چاہیں شیشہ لگادیں۔ بکس کی زمین لکڑی کی ہونی چاہیے۔ البتہ چھت پر اگر کوئی ایسی دھات لگائی جائے جس کا ریفلیکشن پڑتاہوتو زیادہ مناسب ہے۔ اس لالٹین نما بکس کے اندر بلب لگادیں یاتیز روشنی کا چراغ جلادیں۔ اب تین طرف کے خانے بندکرکے چوتھے خانے میں اسی رنگ کا شیشہ لگاکر جس رنگ کی ضرورت ہووہ روشنی حاصل کریں۔
چھٹا طریقہ:
تیل بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف رنگوں کی بوتلوں میں کچّی گھانی کا خالص السی کا تیل بھرکر چالیس یوم تک دھوپ میں رکھیں۔اگر اس عرصے میں بارش آجائے یا بادل چھا جائیں تو یہ دن شمار کرلیں اور چالیس روزکے بعد اتنے روزمزید دھوپ میں رکھ کر کورس پوراکرلیں۔ تیل تیارہوجانے کے بعد اس کی مالش کرائی جائے۔
مالش صبح وشام پانچ پانچ منٹ دائروں میں کرنی چاہیے۔ سرمیں مالش کرنے کے لیے آسمانی رنگ کی بوتل میں تلوں کی تیل تیار کیا جائے۔ یہ تیل ایسے مریضوں کے لیے مفید ہوتاہے جن کے دماغ کوگرمی چڑھ گئی ہو۔ مریض کبھی ہوش میں اور کبھی بے ہوش ہوجاتاہو اور بے ہوشی کی حالت میں بے سروپاباتیں بکتاہو، ڈرتاہو اوریہ کہتاہو کہ مجھے ایک سایہ نظر آتاہے،یاآواز آتی ہے کہ چلو میرے ساتھ چلو، غرضیکہ دماغ گرمی کی وجہ سے بے قابو ہوگیاہو۔ اس تیل کو سرمیں جذب کرانے سے چند منٹ میں ہوش وحواس درست ہوجاتے ہیں۔ نیلی بوتل میں تیار کیا ہوا تلوں کا تیل ان لوگوں کے لیے انتہائی درجہ فائدہ مندہے جو دماغی کام کرتے ہیں یا زیادہ کام کرنے سے دماغی کمزوری پیداہوگئی ہو یا یادداشت کم ہوگئی ہوں ، سرمیں درد، گنج اور کھجلی کی زیادتی سے جو تکلیف ہو اس کے لیے نیلے رنگ کی بوتل کا تیل نہایت فائدہ مند ہے۔ جن لوگوں کو دانشوروں کو مسائل کے سلجھانے میں دقت پیش آتی ہو ان کے لیے یہ تیل قدرت کا انمول عطیہ ثابت ہواہے۔ اس کے صبح وشام استعمال سے ڈراؤنے خواب آنا بند ہوجاتے ہیں۔ دماغ میں نزلہ اگر جم گیا ہو اور اس کی وجہ سے سر میں بھاری پن ہو تو اس تیل کے استعمال سے بلغم رقیق ہوکر ناک سے خارج ہوجاتاہے۔ بینائی کے لئے قوت بخش ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس کے مسلسل استعمال سے موتیا بندکا پانی اترنا بندہوگیاہے۔ سرخ رنگ کی بوتل میں تیار کیا ہو اتیل ایسے مریضوں کو فی الفور شفا بخشتاہے جنھیں سردی کی وجہ سے بدن کے کسی حصہ میں درد رہنے لگاہو۔ بینگنی اورنارنجی رنگ کی بوتل میں تیارکیے ہوئے تیل نے آتشک کے زخموں پر جادو کااثر دکھلایا ہے۔ جو مریض رات کو زخموں میں تکلیف سے چیختے اورچلاتے تھے ایک مرتبہ کے تیل لگانے سے ان کو راحت ہوئی ہے۔
ٍ ساتواں طریقہ:
شیشے کے رنگین جارمیں۔ DISTILLED WATERامپیول AMPULEرکھ کر ایک ماہ تک روزانہ گیارہ بجے سے چار بجے تک دھوپ میں رکھیں اور جس رنگ کی ضرورت ہواس رنگ کا ایک یادو’’CC‘‘انجکشن لگوائیں۔ صرف ایک انجکشن سے مرض کا قلع قمع ہوتے دیکھا گیاہے۔ اگرضرورت پڑے تو ایک انجکشن کا وقفہ دوسرے انجکشن سے کم ازکم ایک ہفتہ ضرورہونا چاہیے۔ کمر میں بیس سال کا پرانا درد سرخ رنگ میں تیار کیے ہوئے صرف ایک انجکشن سے نیست ونابود ہوتے دیکھا گیاہے۔ بشرطیکہ انجکشن کا علاج کسی ہوشیار اورمستند معالج کے مشورہ کے بغیرنہ کیا جائے۔
آٹھواں طریقہ :
آنکھوں کی بیماری ، آنکھوں کی دکھن اوران آنکھوں کے لئے جو آپریشن کے بعد خراب ہوگئی ہوں ہلکے آسمانی رنگ کے شیشے کی عینک لگانا بہترین نتائج کا حامل ہے۔
رنگوں کے اثرات کافی گہرے ہوتے ہیں کچھ رنگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں بین الاقوامی معنوں میں استعمال کیاجاتا ہے۔ مثلاََ سفید رنگ کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سرخ رنگ کے سائے میں جو رنگ آگے ہیں انھیں ’’وارم‘‘ کلر کہا جاتا ہے۔ اس میں لال، اورنج اور زرد رنگ شامل ہیں۔ یہ وارم کلرز انسانی جذبات کو اُبھارتے ہیں۔ وہ رنگ جو نیلے رنگ کے آس پاس ہوتے ہیں۔
*گلابی رنگ
گلابی رنگ اعصاب کو کشیدہ ہونے سے بچاتا ہے۔آپ کو معلوم نہ ہو مگر اکثر ذہنی صحت کے مراکز میں اس رنگ کو دیواروں کی زینت بنایا جاتا ہے جس کا مقصد بے قابو ہوجانے والے افراد کو ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے۔
*پیلا رنگ
پیلا رنگ سورج کی روشنی سے بھی جھلکتا ہے جبکہ اسے ہر جگہ فطرت کے نظاروں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح انسان کی بنائی ہوئی دنیا میں بھی یہ رنگ سب کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالیتا ہے، اس کی چمکدار موجودگی ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے یعنی اسکول بسوں، ٹریفک اشاروں سے لے کر ہائی لائٹرز اور کھیلوں کے میدان تک جہاں برے رویے پر وارننگ کے طور پر کھلاڑیوں کو یلو کارڈ دکھایا جاتا ہے، مگر پیلے اور اورنج یا نارنجی رنگ کو کبھی بھی باورچی خانے میں استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا کیونکہ یہ کھانے کی اشتہا بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
*نیلا رنگ
نیلا رنگ بیماری اور درد کی حالت میں آرام دیتا ہے جس سے مریض کے ذہنی دباؤ میں کمی آجاتی ہے۔ یہ رنگ سمندر اور آسمان پہ چھایا ہوا فطرت کا رنگ ہے اسے دیکھنے سے امن و سکون کا احساس ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کتے کے کاٹے مریض کے لیے نیلارنگ دیکھنا مفید قرار دیا جاتا ہے۔
*سرخ رنگ
سرخ رنگ سے جسم و ذہن متحرک ہوتے ہیں اور خون کی گردش میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔یہ انسانی جذبات کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ مشرقی ثقافت میں اسے خوش قسمتی سے بھی تعبیر کیاجاتا ہے۔
*زرد رنگ
زرد رنگ کے استعمال سے اعصابی نظام کو تحریک ملتی ہے اور جسم پُرسکون رہتا ہے۔