کبھی محلے داری رشتہ داری سے زیادہ اہم تھی…
آج کل کی مصروف بھاگتی دوڑتی زندگی میں ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ پہلے زمانے کی طرح اپنے آس پڑوس یا محلے داروں کی خبر رکھیں۔اب تو ہمیں اکثر یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے اور کن حالات یا کن مسائل کا شکار ہیں ۔اس وقت صورتحال یہ پیدا ہو چکی ہے کہ اگر محلے میں خدانخواستہ کوئی موت ہو جائے تو گلی میں لگے شامیانے سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہے۔جبکہ ہمارے مذہب میں بھی پڑوسی کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں احادیث میں بھی ہدایت دی گئی ہے کہ پڑوسیوں کے ہم پر بے پناہ حقوق ہیں اور ان حقوق کا خیال رکھنا ہم پر فرض ہے۔ لیکن ان حقوق کا خیال رکھنا تو دور کی بات اب تو ایک دوسرے کے لئے برداشت اور تحمل کا عنصرہی بالکل ختم ہو چکا ہے ۔اس کی وجہ زندگی میں برھتی ہوئی پریشانیاں اورمصروفیات ہیں ۔تحقیقات کے مطابق رہنے کے لئے کم جگہ اور تھکا دینے والے روٹین نے لوگوں میں سے برداشت ختم کر دی ہے۔محلے میں چاہے کچرا پھینکنے کا مسئلہ ہو ،بچوں کا لڑائی جھگڑا ہو یا ایک دوسرے کی جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے کی بات ہو کسی بھی معاملے میں برداشت کا عنصر ختم ہوتا نظر آتا ہے۔
دوریاں کیسے پیدا ہوئیں؟
بچوں پر لڑائی
اس سلسلے میں جب ریسرچ کی گئی کہ وہ کون سے ایسے ایشو زیادہ ہوتے ہیں جو کہ آپس میں تناؤ پیدا کر دیتے ہیں،تواس میں پتا چلا کہ سب سے زیادہ بچوں کے معاملے میں لوگوں میں بد مزگی پیدا ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ اگر آپ کسی اپارٹمنٹ یا ہاؤسنگ اسکیم میں رہتے ہیں تو اس میں بھی معاملات اٹھتے ہیں کہ بچوں نے راستے میں اپنی سائیکلز کھڑی کر دیں یا کچرا سیڑھیوں پر پھینک دیا یا چونکہ اپارٹمنٹس میں دیوار سے دیوار ملی ہوتی ہے تو اگر وقت بے وقت پڑوس میں کچھ اٹھا پٹخ ہو رہی ہو تو بھی تلخ کلامی کی نوبت آجاتی ہے کہ ہمارے آرام میں خلل پڑ رہی ہے۔اگر آپ کسی گھر میں ہیں تو بھی بعض اوقات کسی کے ہاں موٹر زیادہ چلی تو پانی راستے میں گِرتا ہے جس سے آنے جانے والوں پر چھینٹیں پڑتی ہیں اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ایسے میں اگر صبروتحمل سے کام لیا جائے اور دوسرے کو تکلیف نہ دینے کا ارادہ کیا جائے تو معاملات آسانی سے سلجھ سکتے ہیں۔ لیکن عموماً دیکھا یہی گیا ہے کہ ایسے میں برداشت کا مظاہرہ بالکل نہیں کیا جاتا اورلوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تک ہوجاتے ہیں۔
اس بارے میں جانئے :کھوتی ہوئی توانائی کو اگر بحال کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام کیجئے
خود غرضی
کچھ لوگ خاصے خود غرض ہو تے ہیں وہ صرف اپنا خیال کرنا اور اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ان کو کوئی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے رویے یا ان کی باتوں سے کسی کو تکلیف پہنچ رہی ہے ۔ایسے افراد کہیں بھی کسی بھی جگہ راستے میں بیچوں بیچ کھڑے ہوکر بلند آواز میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں ،یہ سوچے بغیر کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی آرام کر رہا ہو یا آرام کرنے کا سوچ رہا ہو اور ان کی آواز انہیں ڈسٹرب کر رہی ہو۔یا پھر ان کے گھر کے دروازے اتنی زور سے بند کیے یا کھولے جائیں گے کہ پورا محلہ ہل جائے لیکن ان کو اس چیز کا کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ ایسا وہ ہر روز کر رہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کو احساس دلانا چاہے تو وہ اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے گھر اب گھٹے ہوئے اور چھوٹے ہو گئے ہیں ۔
پرائیوسی
آج کل کی زندگی ایسی مصروف ہوتی جا رہی ہے کہ روزگارکی دوڑ نے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کے مواقع ہی ختم کر دیئے ہیں ۔لوگ چڑچڑے بدمزاج ہو گئے ہیں۔ان کے اپنے اتنے مسائل ہیں کہ وہ دوسرے کے مسائل سننا اور پوچھنا ہی نہیں چاہتے۔اپنے پڑوس کی طرف دیکھنے کی ان کو فرصت ہی نہیں ہے ۔بعض اوقات آپ کواپنے پڑوس سے جھگڑوں کی آواز سنائی دیتی ہے ،مار پیٹ ،گالی گلوچ سنائی دیتی ہے۔پہلے تو ایسی کسی صورتحال میں محلے والے ہی میاں بیوی ،بہن بھائیوں میں تصفیہ کرادیا کرتے تھے ،گھر والوں کی طرح کوئی بھی محلے کا بڑا بزرگ بیچ میں پڑ کر جھگڑا ختم کر وا دیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ،اب لوگ اپنے اپنے گھر میں بیٹھ کر صرف سنتے ہیں اور کسی کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہتے۔نہ ہی کو ئی اور اپنے گھر کے معاملے میں دوسرے کی سننا یا ماننا پسند کرتا ہے ۔
پڑوسیوں کا خیال کیسے رکھیں؟
ہمارے مذہب میں پڑوسیوں کے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کا بہت زیادہ حکم ہے ،بلکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے پڑوسی کا اتنا حق رکھا ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وراثت میں بھی ان کا حق رکھ دیا جاتا۔ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوتا اگر تمہارا پڑوسی بھوکا سوتا ہواور تمھیں خبر نہ ہو۔یعنی آپ اپنے پڑوس کی اتنی خیر خبر رکھیں کہ آپ کو پتہ ہو کہ آج اس کے گھر میں کچھ پکا ہے کہ نہیں ،اس کے دکھ درد کا آپ کو اندازہ ہو۔اس کے حالات کی آپ کو خبر ہو ۔
پچھلے وقتوں میں جب بھی کوئی نیا پڑوسی محلے میںآتاتو آس پاس کے لوگ فوراًملنے چلے آتے ۔ کوئی ناشتہ لیے آرہا ہے تو کوئی شام کی چائے۔ غرض گھر میں رونق لگی رہتی ۔ پھر گھر میں قرآ ن خوانی کی جاتی تو محلے کے سب ہی لوگوں کو بلایا جاتا ۔ آج بھی ایسا ممکن ہو سکتا ہے ۔ اگر لوگ اپنے دلوں کو تھوڑا وسیع کریں اور مل جل کر رہنے کی کوشش کریں تو محلے دار رشتہ داروں سے بھی زیادہ عزیز اور ہمدرد بن جاتے ہیں ۔ اچھے برے وقت میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو فوری طور پر پہنچ سکیں ۔ ان رشتوں کو دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی ثقافت اور بنیادی قدروں سے پھر سے جڑ جائیں ۔