بچوں کی جسمانی نشوونما اوربلوغت کے مسائل

3,287

پیدائش کے وقت بچے کا قد اوسطاً بیس اِنچ اور وزن تقریباً سات، ساڑھے سات پاؤں ہوتا ہے۔لڑکے کسی قدر طویل اور وزنی ہوتے ہیں ۔ عمر کے پہلے سال میں قد اور وزن تیزی سے بڑھتے ہیں۔ دوسرے سال بھی نشوونما پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیز نہیں ہوتی۔پہلے چھ ماہ میں بچے کا وزن دوگنااورپہلے سال کے اختتام تک تین گنا ہوجاتا ہے۔ پہلے سال قد میں پچاس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ تیسرے سال سے آغازِ شباب تک نشو ونما یکساں اور آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔ لڑکیوں کے عنفوانِ شباب کی منزل اوسطاً گیارہ سال سے اور لڑکوں کی بارہ یا تیرہ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ بالغ ہونے تک لڑکے،لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ طویل اور وزنی ہوتے ہیں۔

بارہ سال کی عمر سے کچھ اوپر چودہ سال تک لڑکیاں، لڑکوں سے قدرے زیادہ اونچی اور وزنی اور عضویاتی ترقی کے لحاظ سے لڑکوں سے آگے ہوتی ہیں۔ ان میں لڑکوں سے زیادہ پختگی بھی آجاتی ہے، اس لیے کہ وہ مقابلتاً پہلے بالغ ہوجاتی ہیں اور کچھ عرصے تک لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ اونچی ہوتی ہیں۔

چودہ پندرہ سال کی عمر میں لڑکوں کے قدوقامت لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں۔ پختگی تک پہنچ کر اوسطاًنوجوان لڑکوں کا قد تقریباً پانچ فٹ نو انچ اور نوجوان لڑکیوں کا قد پانچ فٹ پانچ انچ ہوتا ہے۔ بیس سال کی عمر میں لڑکوں کا وزن تقریباًایک سو پینتیس پاؤنڈ اور لڑکیوں کا تقریباً سو پاؤنڈ ہوجاتا ہے۔ ان میں بعض پستہ قد اور بعض بہت طویل قامت، بعض بہت وزنی اور بعض نہایت دُبلے پتلے بھی ہوسکتے ہیں۔

ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ ’’ ابھی وہ اتنا بڑ انہیں ہوا کہ اس کام کو انجام دے سکے‘‘اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچے کی جسمانی ترقی اور نشوونما اس مرحلے تک نہیں پہنچی کہ وہ بعض کاموں کوسر انجام دے سکے۔ چنانچہ والدین کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ بچے اپنی جسمانی نشوونما کے لحاظ سے کس حد تک کام کرنے کے اہل ہیں۔ان سے ان کی استطاعت سے بڑھ کر کام کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

جسمانی تعلیم میں بدن کے اعضا کی ترقی اور نشوونما اور بچے کی تندرستی کا خیال رکھتے ہوئے والدین کو ایک باقاعدہ پروگرام مرتّب کرنا چاہیے۔ یوں تو زندگی کی ہر منزل پر تن درستی اور جسمانی نشوونما کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن عمر کے ابتدائی دس سال یا اس کے مقابلے میں شروع کے پانچ سال زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بچہ جتنا چھوٹا ہو،اسی قدر اس کی طبی دیکھ بھال ،غذا، دانتوں کی احتیاط، کھیل کود اور ورزش زیادہ اہم ہوتی ہے۔

عنفوانِ شباب کا زمانہ بچپن اور بلوغت کے درمیان کا عبوری دورہوتا ہے۔ جسمانی اور جنسی نشوونما کی وجہ سے عبوری دور ظہور میں آتا ہے۔ عنفوانِ شباب کا دور شروع ہونے پر جوانی کی علامات نمودار ہوتی ہیں۔ یہ دور تقریباً تیرہ اور اُنیس سال کی درمیانی عمر پر مشتمل ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں ثانوی جنسی خصوصیات اوسطاً بارہ تیرہ سال کی عمر سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جبکہ زیادہ تر لڑکیوں میں یہ ثانوی جنسی خصوصیات دس اور سولہ سال کے درمیان ظاہر ہوتی ہیں۔لڑکیاں آغازِ شبا ب کے وقت محسوس کرنے لگتی ہیں کہ ان کا جسم تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جنسی اعتبار سے ان کی نشوونما میں تیزی آرہی ہے۔

لڑکوں میں اوسطاً تیرہ چودہ سال کی عمر میں جوانی کی علامتیں نمایاں ہوتی ہیں۔بدن کی عام نشوونما میں بھی تیزی آجاتی ہے ۔لڑکوں کے جسم پر بال نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔آواز میں بھاری پن آجاتا ہے اور کچھ عرصے میں آواز پورے مرد جیسی ہوجاتی ہے۔چہرے ملائم رُواں ظاہر ہونے لگتا ہے اور عنفوانِ شباب کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی یہ رُواں بالوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

عنفوانِ شباب کے دوران لڑکے اور لڑکیاں جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کے لیے نئی جسمانی و جنسی تبدیلیاں اکثر ایک صدمے کی سی کیفیت رکھتی ہیں۔ بعض لڑکیاں محض اپنی لاعلمی کی بناپران تبدیلوں کو کسی بیماری کا نتیجہ قراردیتی ہیں۔ اس موقع پر انھیں جنسی اعضاء کے وظائف اوراس کے مقاصد سے آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی جنسی فعالیت کو صحیح راستے پر لگاسکیں۔

اگر کسی لڑکے کے ساتھیوں کے چہروں پر بال اُگنا شروع ہوگئے ہیں اورا س کا چہرہ صفا چٹ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ بات ذرا عجیب سی معلوم ہوگی۔ اسی طرح ایک لڑکا یہ دیکھتا ہے کہ اس کی آواز اس کے ساتھیوں کے مقابلے میں یکایک بھاری ہوگئی ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں سے کوئی بات غیر فطری نہیں۔ ا س فرق سے قطع نظر بعض بچے اس عمر میں اپنے آپ میں اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے درمیان میں فرق محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ صرف یہی دیکھیں کہ اس خاص عمر میں ان کی اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں نشوونما کی رفتار نسبتاً تیز ہے تو انھیں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں اور اس عمر میں ایسا ہونا فطری ہے۔

والدین اگر اس مسئلے کے نفسیاتی پہلو کے علاوہ دیگر باتوں کا خیال رکھیں تو عمر کا یہ دور کسی اُلجھن کے بغیر آسانی سے گزرسکتا ہے۔مثلاً اس عمر میں بچوں کوا چھی زود ہضم غذا کھانے اور پہننے کو ایسالباس دیا جائے جس سے ان کے نمایاں ہوتے ہوئے جسمانی فرق زیادہ واضح نہ ہونے پائیں تو بچوں کو اس دور سے گزرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کوعمر کا یہ دور آنے سے پہلے ہی بتا دیاجائے کہ اب اس میں کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس طرح وہ ذہنی طورپر تیار رہے گا اور اسے ایک غیر ضروری الجھن اور پریشانی سے نجات مل جائے گی اور اسے ان میں کوئی نیاپن اور اجنبیت محسوس نہیں ہوگئی

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...