پانچ مسائل جو عموماً ہر حاملہ عورت کو پیش آتے ہیں
ماں بننا ایک عورت کی زندگی میں ایک ناقابل فراموش تجربہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایسی نعمت ہے جو ہر کسی کو نہیں ملتی ۔ کچھ کو اس کے لیے طبی امداد حاصل کرنی پڑتی ہے اور کچھ بنا کسی بیرونی مدد کے ہی قدرتی طور پر اس شرف کو حاصل کرلیتی ہیں ۔
چاہے جو بھی صورتحال ہو ماں بننے کا تجربہ ہر کسی کے لیے حیرت، خوشی اور خوف سے بھرا ہوتا ہے ۔ پہلی بار ماں بننے والیخواتین اکثر یہ سوال پوچھتی ہیں کہ حمل ٹہرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟
جیسے جیسے آپ حمل کے مراحل سے گزرتی جائیں گی آپ کو اپنے جسم میں قابل غور تبدیلیاں ہوتی محسوس ہونگی ۔ سب سے پہلے آپ کی بچہ دانی بڑھنا شروع ہوگی جس کے بعد آپ کی جسمانی ساخت تبدیل ہونے لگے گی ۔ یہ اکثر خواتین کے لیے سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہیں کیونکہ آپ کو اپنا ہی جسم اپنا نہیں لگتا۔ آپ کے لیے اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلی کو سمجھنا مشکل ہورہا ہوتا ہے ۔ ان اچانک ہونے والی تبدیلیوں سے مائیں گھبرانے لگتی ہیں ۔ حالانکہ اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ یہ ایکقدرتی عمل ہے جو اپنے آپ ہی ٹھیک بھی ہوجا تا ہے ۔ البتہ اگر آپ کو کوئی تبدیلی غیر معمولی لگے تو اپنے معالج کے پاس جاکر مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
چلیں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حاملہ خواتین کو عام طور پر کن کن پریشانیوں کاسامنا ہوتا ہے ۔ یوں تو ہر عورت کا تجربہ مختلف ہوتا ہے لیکن کچھ ایسی باتیں او ر سوالات ہیں جو ہر حاملہ عورت کے ذہن میں جنم لیتے ہیں جن کیبارے میں بات کرنا ضروری ہے :
صبح اٹھ کر طبیعت خراب ہونا
یہ حمل ٹہرنے کی سب سے پہلے ظاہر ہونے والی علامت ہے ۔ حاملہ عورتیں صبح ہوتے ہی بے چینی محسوس کرنے لگتی ہیں ۔ اکثر کو متلی بھی محسوس ہوتی ہے ۔ خاص طور سے پہلے تین ماہ تک خواتین اسی کیفیت کا شکار رہتی ہیں ۔ یوں تو عورتوں کی ایسی حالت صبح اٹھ کر ہوتی ہے لیکن وہ دن کے کسی بھی حصے میں ایسا محسوس کر سکتی ہیں ۔
کمر میں درد
جیسے جیسے مہینے گزرتے جاتے ہیں یہ کیفیت بڑھتی ہی جاتی ہے ۔ چونکہ مہینیگزرنے کے ساتھ حاملہ عور ت کا وزن بھی بڑھتا جاتا ہے جس سے کمر اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی ہاتھا ور پاؤں پہ سوجن بھی آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس سے خواتین اور بے سکون ہوجاتی ہیں اور آئینے کے سامنے اانہیں اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے ۔
قبض کی شکایت
یہ تکلیف جسم میں ہارمونز کی تبدیلی کے باعث ہوتی ہے جس کی وجہ سے سے انٹریاں ٹھیک طرح سکڑ نہیں پاتیں اور نظام انہضام سست ہوجاتا ہے ۔ جب کسی کو قبض کی شکایت ہو تو سینے میں جلن اور کھانا ہضم نہ ہونا تو لازم ہے ۔ یہ حاملہ ماؤں کے لیے بڑی دشواری کا باعث بنتا ہے کیونکہ اس سے پیٹ پھولنے لگ جاتا ہے اور پیٹ میں گیسز بھرنے لگتی ہیں ۔
بیٹے کی خواہش
جیسے ہی گھر والوں کو حمل کے بار ے میں معلوم ہوتا ہے سب کو یہ جاننے کی جلدی ہوتی ہے کہ گھر میں بیٹا آرہا ہے یا بیٹی ۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پرپیٹے کی پیدائش کو زیادہ باعث مسرت اورقابل فخر سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے سب کی یہ ہی خواہش اور دعا ہوتی ہے کہ پیٹا ہی پیدا ہو۔ اس غیر ضروری دباؤ سے عورت مزید پریشان ہونے لگتی ہے اور اسٹریس میں چلی جاتی ہے ۔ اس روایت کو اب ختم ہونا چاہیے ۔ آج عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ اپنے گھر اور معاشرے کی بھلائی کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔ اس لیے یہ خواہش کرنے کے بجائے کہ بیٹا ہو، یہ دعا کرنی چاہیے کہ بچہ اور ماں دونوں صحت مند رہیں ۔
بن مانگے مشورے
دوران حمل عورت جس سے بھی ملتی ہے اسے کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور مل جاتا ہے ۔ یہ مشورے اکژر ایک دوسرے کے متضاد بھی ہوتے ہیں جس کے باعث عورت کے لیے یہ فیصلہ لینا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس ٹوٹکے پر عمل کرے اور کس پہ نہیں ۔ اگر کسی نسخے کا اثر امید کے مطابق نہ نکلے تو یہ حاملہ ماں کے لیے وبال جان بھی بن جاتا ہے۔ چونکہ بعد میں سب ماں کو ہی قصور وار ٹہراتے ہیں کہ اس نے بغیر تصدیق کیے کسی کے مشورے پر عمل کیوں کیا ۔ لہذابہتر یہ ہی ہے کہ بنا ڈاکٹر کے مشورے کے کسیٹوٹکے پر عمل نہ کیا جائے ۔
ماں بننا ایک عورت کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ البتہ ان مشکلات کے باعث عورتیں یہ مراحل ایک عجیب پریشانی اور ٹینشن میں گزارتی ہیں ۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ آس پاس کے لوگ حاملہ ماؤں کے لیے مشکلات کا باعث بننے کے بجائے ان کا سہارا بنیں ۔ تاکہ وہ اس حسین دور کا لطف اٹھا سکیں اور اپنی جسمانی تکالیف کا ہمت سے سامنا کرسکیں ۔