پولیوکیسز میں اضافے کی وجوہات اور حل

506

پولیو۔۔۔۔۔۔ انسانی جسم کو بری طرح افیکٹ کرنے والا خطرناک وائرس ہے۔ یہ وائرس نروس سسٹم پر حملہ آور ہوکہ چند گھنٹوں میں جسم کو پوری طرح بے حس و حرکت کر دیتا ہے۔ پولیو وائرس ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے شخص میں منتقل ہوجاتا ہے ،خاص کر پانی یا کھانے کے ذریعے۔ پاکستان کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے ان تین آخری ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں پولیو ابھی بھی ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ بنا ہوا ہے ۔

پولیو کی ابتدائی علامات میں تھکن، بخار، سردرد، الٹی، جسم کا جکڑنا خاص کر کندھے میں ، جسم کے مختلف اعضاء میں درد، زیادہ تر مریض کو پیروں میں فالج ہوجاتا ہے جس سے پیر مڑ جاتے ہیں۔ 5سے 10فیصد مریض سانس کے عضلات کے حرکت نہ کرنے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پولیو وائرس زیادہ تر پانچ سال تک کے بچوں کو افیکٹ کرتا ہے۔

پاکستان میں پولیو کی چند اہم وجوہات

*بے روزگاری کے باعث حفاظتی ٹیکے نہ لگانا۔
*ملک میں معاشی سختی جسکے باعث پولیو مہم بہت عرصے تک رک جاتی ہے۔
*جہالت بھی ایک بنیادی سبب ہے لوگوں کو آج بھی یہ غیر ضروری لگتا ہے اور لوگ بچوں کو ٹیکے لگوانے سے سرے سے منع کردیتے ہیں ۔
*ملک میں جاری شدت پسندی کی لہر کے باعث پولیو ورکرز کا قتل بھی لوگوں میں خوف کی فضا قائم کرتا ہے ۔
*اسکے علاوہ قدرتی آفات نے بھی حفاظتی ٹیکوں کی مہم کو متاثر کیا ہے۔

پولیو کے قطرے

پولیو وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن اس سے بچاؤ ہی اسکا بہترین علاج ہے پولیو کے وقفے وقفے سے دیئے جانے والے قطرے ہی اس مرض سے بچاؤ کا واحد طریقہ ہے۔ اس لئے پیدائش سے لے کر پانچ سال تک کی عمر میں پولیو کے قطرے پلانا لازمی ہے دنیا بھر میں پیدائش کے فوراً بعد ہی نوزائیدہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر عالمی ادارۂ صحت نے 1994ء میں عالمی سطح پر پولیو کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک قرار داد منظور کی جس میں یہ طے کیا گیا کہ سال 2000ء تک پولیو وائرس سے نجات حاصل کرلی جائے گی ۔ قرار داد میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ہر سال حفاظتی ٹیکوں کا قومی دن منایا جائے گا اور اس دن پانچ سال سے کم عمر بچوں کو حفاظتی ٹیکے پلائے جائیں گے قرار داد کی منظوری کے بعد فوری طور پر پاکستان ‘ انڈیا ‘ افغانستان اور نائیجریا میں National Immunisation dayکا آغاز کیا گیا تاکہ ملک کو پولیو سے پاک کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے WHOکے تیار کردہ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں ہم ناکام رہے اور ہم پاکستان سے پولیو کو مکمل طور پر جڑ سے نہیں اکھاڑ پائے ۔ صرف 83%بچوں کو ہی پولیو کے قطرے پلائے جاسکے جسکی وجہ ماہرین کے مطابق پاکستان پر لگائی جانے والی معاشی پابندیاں ہیں ۔ سال 2005ء میں پولیو کے 28کیسز سامنے آئے اسکے بعد 2011ء میں پولیو وائرس کے 190کیسز کی تشخیص ہوئی جوکہ بعد ازاں کم ہوکر 58ہوگئی لیکن ایک بار پھر 2014ء میں ان کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور 202بچوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔

سال 2012ء میں شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی اور حیدرآباد میں گٹر کی نالیوں میں پولیو وائرس پایا گیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بہت تیزی کے ساتھ یہ مرض پھیلتا جا رہا ہے ۔افغانستان اور نائیجریا میں سالانہ 8سے 10پولیو کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ وزیرستان میں تو کئی سالوں سے حالات کے پیش نظر اور دہشت گردی کے باعث پولیو مہم نہیں چلائی جاسکی ہے۔
National Immunisation dayکے آغاز کے بعد سے گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے رہے ہیں لیکن 9/11کے بعد سے پاکستان میں پھیلتی دہشت گردی کی لہر نے پولیو کے خاتمے کی جدوجہد کو بھی لپیٹے میں لے لیا ہے ۔ خاص کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد لوگوں میں پولیو مہم کو لے کر بے اعتباری بڑھی ہے اسکے علاوہ ایک اور سبب پولیو ہیلتھ ورکرز کا قتل بھی ہے جس سے لوگوں میں خاص کر لیڈی پولیو ہیلتھ ورکر میں خوف بڑھ گیا ہے ۔پچھلی چار دہائیوں سے ہم اس مرض سے نجات کے حصول کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ جاننا بے حد اہم ہے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ جنکے باعث ہم ابھی تک پولیو وائرس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمارے لیے یہ سوچنا بھی بے حد اہم ہے کہ اب اور کتنے سال ہمیں درکار ہیں کہ ہم پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ کرسکیں۔

پولیو کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات

*صرف سال میں ایک بار پولیو سے بچاؤ کی مہم نہ چلائی جائے بلکہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہر بچے نے پولیو کے حفاظتی قطرے پیئے ہوں۔
*پاکستان کے سارے اسپتالوں میں بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اسے قطرے پلائے جائیں اور اسکا ریکارڈ لکھا جائے، ریکارڈ سے یہ پتہ چلے گا کہ وہ کتنے بچے ہیں جن کو قطرے پلائے جاچکے ہیں اور کن کن بچوں کو نہیں پلایا گیا ہے۔
*پولیو ورکرز کی اس سلسلے میں ٹریننگ کی جائے تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہواور انہیں پتہ ہو کہ کس طرح حفاظتی قطرے پلانے ہیں۔
*انتظامیہ پولیو ویکسین کی کوالٹی ‘ اسکی حفاظت اور اسکو کتنے ٹمپریچر میں رکھنا ہے اس کا دھیان رکھے ۔دیہی اور دور دراز علاقوں میں پہنچنے تک ویکسین خراب نہ ہو اسکا بھی خیال رکھا جائے ۔
*اسکول انتظامیہ ایڈمیشن کرتے وقت بچوں کے پولیو ویکسین کارڈ کو ایڈمیشن Requirementکا حصہ بنائیں۔
*اسپتال میں پولیو ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے پولیو ہیلتھ ورکرز کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔
*وہ عوامل جوکہ پولیو مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا ا سے چلانے نہیں دے رہے ہیں انکے خلاف حکومتی سطح پر کارروائی کی جائے۔
*نچلے طبقے میں پولیو آگاہی مہم صحیح انداز میں چلائی جائے ۔قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں ویکسین کی فراہمی کو موثر بنایا جائے۔
*جو والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلا رہے ہوں تو اسپتال انتظامیہ فوراً اسکے خلاف ایکشن لے کر پولیس کو انفارم کرے ۔
*وہ بچے جن میں پولیو کی تشخیص ہوچکی ہے وہاں کی علاقائی انتظامیہ اس بات کی ذمہ داری لے کہ وہ اسکو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں اور مزید بہتری کیلئے کوششیں کرے ۔
*وہ علاقے جہاں پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں خاص کر ایسے علاقے جہاں لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں جہاں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ 5سال سے کم عمر کے مزید بچے حفاظتی ٹیکے لگا چکے ہوں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...