غریبوں کا گوشت۔۔دالیں

3,362

صحت مند غذا

دالیں دنیا کے صحت مند ترین کھانوں میں سے ہیں۔ یہ تقریباً دنیا کے ہر ملک میں کھائی جاتی ہیں۔کئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں، فائبر، وٹامن اور معدنیات کی وجہ سے دل کی صحت کے لئے بہترین ہیں۔ دالوں میں فولیٹ اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ میگنیشیم کی کمی سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دالوں کے باقاعدہ استعمال سے یہ کمی دور رکھی جاسکتی ہے۔ دالوں میں موجود فائبر کی وجہ سے خون میں کولیسٹرول کا لیول کم ہوتا ہے۔ کولیسٹرول اگر بڑھتا جائے تو خون کی نالیوں کی دیواروں میں جمع ہوکر ان نالیوں کو بلاک کرسکتا ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر دل کوخون کی سپلائی بند ہوجائے تو اس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے۔

اگر دماغ کو آکسیجن کی سپلائی رک جائے تو اسٹروک ہوجاتاہے۔ کولیسٹرول کا لیول نارمل دائرے میں رکھنا سبھی کے لئے ضروری ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں خاص طور پر کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ذیابیطس میں ویسے ہی خون میں شوگر کے زیادہ ہونے سے خون کی نالیوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ایک کی جگہ دو مسئلے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔اس لیے عام افراد کو دالوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے تاکہ ان مسائل کو روکا جاسکے ۔

اقوام متحدہ کے تحت سال 2016کو غریبوں کے گھروں میں سب سے زیادہ پکنے والی ڈش ’’ دال ‘‘ سے منسوب کیا ہے ، یعنی2016کو دال کا سال قرار دیا ہے ۔ جس کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں دالوں کی غذائی افادیت کا شعور اجاگر کرنا ہے ۔ دالیں غذائیت کے اعتبار سے گوشت کے بعد پروٹین کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں۔اسی لئے انہیں غریبوں کا گوشت بھی کہا جاتا ہے ۔

غذائیت

زیادہ گوشت کھانا آنتوں کی صحت کے لئیے مضر ہے۔ اس سے آنتوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فروٹ، سبزیاں اور دالیں کھانے سے آنتوں کی صحت بہتر رہتی ہے اور ان میں کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔دالیں کھانے سے قبض کی شکایت بھی دور ہوتی ہے۔ یہ فوائد حاصل کرنے کے لئیے ہفتے میں ایک سے زائد بار دال کھانی چاہئے۔ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لئیے بہترین ہیں کیونکہ فائبر موجود ہونے کی وجہ سے دال کھانے سے مریضوں کے خون میں شوگر کی مقدار میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ دال چاول ایک پسندیدہ خوراک ہیں۔ دال کا سوپ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ وہ بہت مزے کا بنتا ہے اور تمام لوگ اسے باآسانی بنا سکتے ہیں۔ دال دھو کر اس میں پانی ، نمک ، مرچ اور ہلدی ملا کر پکائیں۔ ایک ٹماٹر کاٹ کر ڈال دیں۔ جب دال نرم ہوجائے تو اس کو بلینڈ کرلیں۔ ریگولر دال سے اس کو زیادہ پتلا رکھنا ہوگا۔

دالوں میں فولاد موجود ہوتا ہے۔ فولاد سے خون کے سرخ جسیمے بنتے ہیں اور اگر فولاد کی کمی ہو تو جسم میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ خواتین میں فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کی بیماری بہت عام ہے۔ خون کے سرخ جسیمے آکسیجن کی سپلائی کا کام کرتے ہیں اور اگر ان کی کمی ہوتو مریضوں میں تھکن کی شکایت ہوسکتی ہے۔دال اس کا بہترین علاج ہے ۔دالوں میں فولیٹ موجود ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین میں فولیٹ کی کمی کی وجہ سے ان کے ہونے والے بچوں میں جسمانی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سنجیدہ بیماری نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ ہے۔ اس بیماری کے شکار معصوم بچے تمام زندگی کے لئیے معذور ہوجاتے ہیں۔

بہترین ڈائٹ

اگر آپ وزن کم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تو دالوں کو اپنی خوراک کا باقاعدہ حصہ بنائیں۔ دالوں میں کئی ضروری وٹامن اور نمکیات موجود ہوتے ہیں۔ ان سے پروٹین حاصل ہوتے ہیں اور چکنائیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ایک کپ پکی ہوئی دال میں صرف 230 کیلوریاں ہوتی ہیں۔کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دالوں کا استعمال بلڈ پریشر کو خطرناک حد تک بڑھنے سے روکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دالیں انسانی خون کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔سبھی دالیں آئرن کا خزانہ ہیں۔ایک پلیٹ دال روزانہ کھانے سے مطلوبہ خوراک کا37 فیصد آئرن حاصل ہوتاہے۔اور دالوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمارے پٹھے کو مضبوط بناتی ہے۔

خواص کے لحاظ سے مختلف دالوں میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے ۔یہاں چند دالوں اور ان میں موجود غذائی اجزا کی تفصیل بیان کی جارہی ہے

ارد کی دال

ارد کی دال دیگر تمام اقسام کی دالوں میں سب سے زیادہ غذائیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس کی کاشت اگرچہ پورے ایشیا اور افریقہ میں ہوتی ہے لیکن جتنی اہمیت اسے برصغیر میں دی جاتی ہے اتنی اہمیت اسے کہیں اور حاصل نہیں۔ارد کی دال میں پروٹین 24.0 فیصد، رطوبت 10.9فیصد، چکنائی 1.4فیصد ، چکنائی 0.9 فیصد اور کاربوہائیڈریٹس 59.6فیصد ہوتی ہے ۔اسی طرح 100گرام دال میں فاسفورس 385 ملی گرام ، آئرن 9.1 ملی گرام ، کیلشیم 9.3ملی گرام کے علاوہ قلیل مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس بھی پائی جاتی ہے ۔

ارہر کی دال

ارہر کی دال بھی برصغیر کے لوگوں کی مرغوب غذاؤں میں شامل ہے ۔جبکہ اس کی کاشت برصغیر کے علاوہ انڈونیشیا ، جزائر غرب الہند اور افریقہ میں کی جاتی ہے ۔ارہر کی دال میں پروٹین 22.3 فیصد،ریشے 1.5 فیصد، رطوبت 13.4 فیصد،معدنی اجزا 3.5فیصد ، کاربوہائیڈریٹس 57.6فیصد اور قلیل مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس موجود ہوتی ہے ۔ جبکہ اس میں فاسفورس، آئرن اور کیلشیم کی بھی مناسب مقدار شامل ہوتی ہے ۔

مسور کی دال

یہ منہ اور مسور کی دال ۔۔ اندازہ لگالیجئے یہ دال اتنی مشہور ہے کہ اس کے حوالے سے محاورہ بھی موجود ہے ۔ انسانی خوراک کے لیے کاشت کی جانے والی نباتات میں مسور کی دال قدیم ترین چیز ہے ۔ زمانہ قدیم میں یونان اور روم میں یہ شوق سے کھائی جاتی تھی ۔ پاکستان اور بھارت میں آج بھی اس کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ دال میں 12 فیصد رطوبت ، 25 فیصد پروٹین 60فیصد کاربوہائیڈریٹس پائی جاتی ہے ۔جبکہ پوٹاشیم اور فاسفورس بھی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے ۔

چنے کی دال

برصغیر میں سب سے زیادہ استعمال ہونی والی دال چنے کی ہے ۔موجودہ دور میں اس کی زیادہ تر کاشت پاکستان اور بھارت کے علاوہ مصر،جنوبی امریکا ، آسٹریلیا، اور ایتھوپیا میں کی جاتی ہے ۔ چنے کی خشک دال میں 17.1فیصد پروٹین ، 3.0فیصد معدنیات،9.8فیصد معدنیات ، 3.9فیصد ریشے ، 5.3فیصدچکنائی اور60.9فیصد کاربوہائیڈریٹس پائی جاتی ہے ۔ 100 گرام چنے کی دال میں فاسفورس 312ملی گرام ،وٹامن سی 3ملی گرام ، کیلشیم 2.2ملی گرام ، آئرن 10.2ملی گرام کے علاوہ مناسب مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس بھی شامل ہوتی ہے ۔

مونگ کی دال

مونگ کی دال کا آبائی وطن ہندوستان ہے ۔ جہاں اس کی کاشت زمانہ قدیم سے ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اپنے طبی خواص کے لحاظ سے پاک بھارت میں اس کا استعمال بھی بہت کیا جاتا ہے ۔ مونگ میں پروٹین 24فیصد، چکنائی 1.3فیصد، رطوبت 10.4فیصد، معدنی اجزا3.5فیصد، ریشے 4.1فیصد، کاربوہائیڈریٹس 56.7فیصد ہوتی ہے ۔ جبکہ 100 گرام مونگ کی دال میں فاسفورس 326ملی گرام ، آئرن 7.36ملی گرام ، کیلشیم 124 ملی گرام اور کسی حد تک وٹامن بی کمپلیکس پائی جاتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...