بچوں کو اپنی نظر میں رکھیں قید میں نہیں

2,555

اولاد اللہ کی نعمت ہے ۔والدین اور بچوں کا ساتھ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بچوں کو والدین کی محبت ، حمایت ، توجہ ، تحفظ اور احترام کی ضرورت ہوتی ہے ۔بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ہمارا آج کا عمل انکے لئے زندگی کا اصول ہے۔بچوں کواپنی ملکیت سمجھ کر ان پر بے جا پابندیاں لگانے سے وہ معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں کرپاتے جسکی انھیں یاوالدین کو خواہش ہوتی ہے۔ ذیل میں کچھ تجاویزپیشِ خدمت ہیں جو شاید آپکے کچھ کام آسکیں اور آپ اپنے بچوں کے بہترین محافظ بن سکیں۔

پرسکون صحت بخش ماحول

گھر میں بچے کو اچھا اور پرسکون ماحول دیں۔تاکہ وہ اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دے ۔جب بچہ گھر پر ہو توکسی بھی کام کے لئے اسکے پیچھے نہ لگیں ۔بلکہ اسمیں خود احساس ذمہ داری بڑھانے کی کوشش کریں ۔تاکہ وہ اپنے کام خو د ذمہ داری سے انجام دے سکے ۔

سوالات اور پوچھ گچھ کا طریقہ

آپکا مزاج آپکے بچے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اپنے بچے سے کسی بھی بات کے متعلق سوال نارمل انداز میں پوچھیں ۔ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ آپکے بچے کو تناؤ کی طرف لے جاسکتی ہے۔ جبکہ دوستانہ رویہ آپکو اپنے بچے سے قریب تر لے جاسکتاہے۔ اپنے بچے کے ساتھ پیار بھر ا انداز اپنائیے ۔روک ٹوک اور بے جاسوالات آپکے بچے کے ذہن پر برا اثر ڈال سکتے ہیں۔

بچے سے موزوں لاڈپیار

اپنے بچے کو تفریح کے مواقع فراہم کریں ۔باہر گھمانے پھرانے لے کر جائیں ۔اس سے آپکے بچے میں اعتماد بڑھے گا۔ اسے اچھائی اور برائی کا فرق سمجھائیں ۔بچے کے ساتھ مل کر کھیلیں۔ اسطرح جب بچہ آپکے قریب ہوگا تو وہ آپکی بات پر توجہ دے گا۔ آپکی پسند نہ پسند کا خیال رکھے گا اور اسکے رویہ میں اگر کوئی خرابی ہوگی تو وہ بھی دور ہوجائے گی ۔آپکا اپنے بچے پر مان اسے آپکا مان رکھنا سکھائے گا۔ اعتدال میں رہتے ہوئے اپنے بچے کی ہر جائز خواہش کوپوراکرنے کی کوشش کریں۔

بچوں سے وابستہ امیدیں

ہر ماں باپ کا حق ہے کہ وہ اپنے بچے کیلئے خواب دیکھیں ۔لیکن اگر آپکا بچہ خواب دیکھے تو اسکے خواب کوبھی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بچے کا ساتھ دیں۔ہو سکتا ہے وہ بھی بڑاہوکر عبدالستار ایدھی یا آگسٹائن بنے ۔

ہاتھ اٹھانے سے گریزکریں

بچے پر ہاتھ اٹھانے یا اسے تکلیف دہ سزادینے سے گریز کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپکا بچہ سہم جائے گا۔آپکے اور اسکے رشتے میں ڈر غالب آجائے گا ۔اسے آپکے اعتماد کی ضرورت ہے آپکے ڈر کی نہیں ، اگر وہ آپ سے ڈرے گا تو وہ کبھی بھی آ پ سے اپنے دل کی بات نہیں کرپائے گا ۔اور اسطرح اسکی زندگی میں خلاء پیدا ہوسکتاہے۔

معاشرتی ہم آہنگی

معاشرتی تعلقات بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی سے ملناجلنا پسند نہیں کرتے تو ضروری نہیں کہ بچے پر بھی دوستوں سے تعلقات استوار کرنے پرپابندی لگائی جائے ۔ اگروالدین بڑوں کا ادب ،ہمسایوں سے حسن سلوک،بچوں سے شفقت ومحبت اور اخلاق و کردار کا درس دیں۔

بچوں کو عزت دیں

ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ بچے بڑوں کا احترام کریں۔ انکی موجودگی میں کوئی لفظ منہ سے نہ نکالیں۔جب وہ آئیں تو انکے لئے کھڑے ہوجائیں ۔اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اسے بآسانی بدتمیز قرار دے دیا جاتاہے۔ جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ اپنی پیاری بیٹی کی آمد پر کھڑے ہوکر انکا استقبال کیا کرتے تھے۔ تو ہم کیوں صرف اپنے بچوں سے ہی اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہی سلام میں پہل اور عزت کریں۔

مزید جانئے :بچوں کی یہ عادتیں چھڑوانے کے ٹوٹکے


 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...