چائے چاہیئے! کونسی جناب؟
صبح سویرے جاگنے کے بعد کسی بھی فرد کو طلب ہونے والی پہلی شے عموماً ’’چائے‘‘ TEAکا ایک پیا لہ ہی ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صبح کے تصور کے ساتھ ہی چائے کا خیال بھی فوراً ذہن میں آتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ دنیا بھر میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پی جانے والی چیز چائے ہی ہے۔ یوں تو کئی اقسام کی چائے دنیا کے طول و عرض میں استعمال کی جاتی ہیں مگر اس کی اہم اور بنیادی اقسام چار یعنی سیاہ، سفید، سبز اور ماچا ہیں۔
چائے کی یہ چاروں اقسام ایک ہی پودے جس کا نام کمیلیا سنیسس ہے سے حاصل کی جاتی ہیں۔ چائے کی مندرجہ بالا تمام اقسام اگرچہ ایک ہی خطہ سے حاصل کی جاتی ہیں تاہم کاشت اور پروسیسنگ کے عمل کی وجہ سے ان کی مختلف اقسام کی چائے کا ذائقہ بھی ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ اور منفرد ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں یہ چار قسم کی چائے نہ صرف پسند کی جاتی ہیں بلکہ کروڑوں افراد ٹنوں کے حساب سے روزانہ انہیں پی بھی جاتے ہیں۔ چائے ایک ایسا مشروب ہے جو مشرق کے ساتھ مغرب میں بھی اب نہایت شوق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی افادیت بھی بہت زیادہ ہے اس لیے یہ ہر ایک کے لیے پسندیدہ مشروب ہے۔ چائے تھکاوٹ، سستی اور نیند دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے اکثر گھرانوں میں صبح اٹھنے کے بعد ’’بیڈٹی‘‘ کی طلب ہی اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
1۔ سبز چائے:
کمیلیاکے تازہ پتوں کو نکال کر فوری طور پر بھاپ کے ذریعے انہیں محفوظ کرلیا جاتا ہے جس سے ان میں آکسیڈیشن اور خمیر پیدا ہونے کا عمل رک جاتا ہے اس سے سبز چائے کی پتیاں تازہ، نرم رہتی ہیں اور ان کا ہلکا ذائقہ محفوظ رہتا ہے۔
2۔ سفید چائے:
سفید چائے کی تیاری بھی تقریباً سبز چائے کے ہی طریقہ سے کی جاتی ہے تاہم اس قسم کی چائے کے لیے بالکل نوخیز اور چھوٹے پودوں کے پھولوں اور پتیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے اس قسم کی چائے میں ایک منفرد ذائقہ شامل ہوجاتا ہے۔
3۔ سیاہ چائے اور قہوہ:
چائے کی اس قسم کے لییکمیلیا کی پک جانے والی پتیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ قہوہ کے لیے استعمال ہونے والی چائے کی پتی جزوی طور پر جبکہ سیاہ چائے کے لیے پتیوں کو مکمل طور پر ایک خاص پروسیس کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
4۔ ماچا ٹی:
ان اقسام کے علاوہ چائے کی ایک اور قسم ماچاٹی ہے جو آج کل بڑی تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ بہ ظاہر یہ سبز چائے کی ہی ایک قسم نظر آتی ہے مگر در حقیقت یہ توانائی اور ذائقہ کے اعتبار سے سبز چائے سے نہایت بہتر تصور کی جاتی ہے۔ کیونکہ اس میں مکمل پتیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس سبز چائے میں ان پتیوں کا چورا استعمال ہوتا ہے اس طرح دونوں کے مختلف طریقہ سے چائے بنانے کے عمل سے دونوں ہی طرح کی چائے میں الگ الگ لیکن مزیدار ذائقہ پیدا ہوتا ہے۔
چائے کی مختلف اقسام پر ہونے والی ریسرچ کے مطابق سیاہ چائے کی ایک پیالی میں 2کیلوریز اور ایک گرام کا ربو ہائیڈریٹ پایا جاتا ہے۔ اور اس سیاہ چائے میں موجود یہ مقدار دن بھر کے لیے درکار میگنیشیم کی 26 فی صد ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایک کپ چائے میں پوٹا شیئم، تانبا اور فولیٹ کی مختصر مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔ بغیر شکر کی سبز چائے میں توانائی کا کوئی حرارہ نہیں پایا جاتا اور اسے زیرو ریٹیڈ کیلوریز کی چائے سمجھا جاتا ہے اسی لیے موٹاپے کا شکار افراد اپنے وزن میں کمی کے لیے اس چائے کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ جس سے انہیں خاطر خواہ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ ایک کپ چائے میں کیفین کی مقدار کا انحصار چائے کے پودوں کی پتیوں کی مقدار اور پروسیس یعنی طریقہ کار کے دورانیہ پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر چائے کی مختلف اقسام میں کیلوریز کی مختلف مقدار پائی جاتی ہیں جو آپ کو ہائی ڈپریشن کے لیے مدد فراہم کرتی ہیں دنیا کی ہر قسم کی چائے اینٹی آکسیڈیشن کا ایک بہترین ذریعہ بھی سمجھی جاتی ہیں۔ چائے کو اس لحاظ سے بھی دوسرے مشروبات پر فوقیت حاصل ہے کہ اس میں بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
ذہنی دباؤ کے لیے مددگار
چائے کا متوازن استعمال ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کم کیلوریز کے باوجود یہ ذہنی استعداد، آسودگی کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے اور اس معاملے میں سفید چائے کو دیگر اقسام پر برتری حاصل ہے۔ جس کے استعمال سے بعض سنجیدہ نوعیت کے ذہنی امراض سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے اور یہ یاداشت اور فیصلہ سازی کی قوت میں اضافہ بھی کرتی ہے۔
امراضِ قلب و دیگر بیماریوں سے بچاؤ
بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تحقیق جس میں پاکستان سمیت کئی ممالک شامل رہے یہ بات ثابت کرتی ہے کہ سبزجائے کا استعمال امراضِ قلب، ہاضمہ و دیگر کئی بیماریوں کے اسباب کی روک تھام کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ یہ ریسرچ 40 سے 80 برس تک کے ہزاروں افراد پر کئی برس تک جاری رہی۔ روزانہ پانچ کپ سبز چائے کا استعمال کرنے والوں کو بالخصوص دل کے امراض کا نسبتاً کم سامنا پڑا۔ جبکہ ایک کپ سبز چائے روزانہ پینے والے افراد کی صحت مسائل کا شکار رہی۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سبز چائے کا دن میں زیادہ استعمال کسی بھی فرد کو ناگہانی بیماریوں سے رکھ سکتا ہے البتہ اس کا دن بھر میں کم استعمال انسانی جسم یا صحت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
کینسر سے بچاؤ
چائے میں موجود پولی فینول انسانی مدافعتی نظام کو انتہائی مضبوط اور طاقت ور بناتا ہے اور انسانی جسم میں منفی ریڈیکلز کے خاتمہ کے لیے موثر ثابت ہوتا ہے پولی فینول خطرناک UVB تابکاری سے ہونے والے نقصانات کی شدت کو کم کرتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق جن علاقوں یا ملکوں میں سبز چائے کا استعمال زیادہ ہوتا ہے وہاں کینسر کی شرح نمایاں حد تک کم دیکھی گئی ہے تاہم حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کینسر کی اس کم شرح کی وجہ سبز چائے ہی ہے یا اس خطہ کی لوگوں کا طرزِ زندگی۔ ایک تحقیق سے یہ ضرور ثابت ہوا ہے کہ سبز چائے مسلسل استعمال کرنے والے افراد بالخصوص خواتین اور ایسے لوگوں کی نسبت جو سبز چائے کا استعمال نہیں کرتے کی نسبت لبلبہ کے کینسر کا کم شکار ہوتے ہیں اسی طرح معدہ، چھاتی، پھیپھڑوں اور کینسر کی کئی دیگر اقسام سے بچاؤ میں بھی سبز چائے معاون ثابت ہوئی ہے۔
مزید جانئے :کیلا ۔۔غذا بھی، دوا بھی