تھیلیسیمیا۔۔۔والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والی خطرناک بیماری

675

تھیلیسیمیاخون کی ایک خطرناک بیماری ہے،اس میں انسانی جسم میں رواں دواں خون کے سرخ ذرات متاثرہوکر انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ان جسیموں کی کمی پوری کرنے کیلئے ان مریضوں کو بار بارخون چڑھاناپڑتاہے۔ اس طرح ان کے جسم میں سرخ جسیموں کی کمی تو پوری ہوجاتی مگر دوسری پیچیدگیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ یہ بچوں کی بیماری ہے۔یہ مرض موروثی طورپروالدین سے بچوں میں منتقل ہوتاہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان میں پائی جانے والی سب سے عام موروثی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے۔ ہر سال ملک میں پیدا ہونے والے بچوں میں کم و بیش چھ ہزار بچے تھیلیسیمیازدہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ساٹھ سے سترفیصد بچے دس برس کی عمر تک مرجاتے ہیں۔زندہ رہنے والے بچوں کو وقفے وقفے سے نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد ہیپاٹائٹس بی یا سی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ خون کی منتقلی کا غیر محفوظ نظام ہے۔ قانون قدرت کے مطابق اور انسان کی خوش قسمتی سے یہ بیماری ہر بچے کو وراثت میں عام طورپر نہیں ملتی چند بچوں میں یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے اور باقی بچے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔
تھیلیسیمیامیجرزیادہ شدید اورخطرناک قسم ہے۔ تھیلیسیمیامائنر عام طور پر کوئی علامات یا بیماری پیدا نہیں کرتا، اس کی اہمیت یہ ہے کہ جس شخص کو یہ بیماری ہو صرف وہی اس بیماری کوورثے میں دے سکتا ہے۔اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اور نہ ہی اس کے علاج کی ضرورت ہے۔ اگر ماں، باپ میں سے ایک کو تھیلیسیمیامائنر ہے اور دوسرے کو نہیں ہے تو ہرحمل کے دوران 50 فیصد امکان ہے کہ بچے کو والدین کی طرح تھیلیسیمیامائنر ہوگا احتمال یا امکان ہے یعنی یہ حتمی قانون نہیں ہے ایسی شادی کے نتیجے میں4 صورتیں ہوسکتی ہیں۔
1 ۔آدھے بچے نارمل اور آدھے بچوں کو تھیلیسیمیامائنر۔
2 ۔سب بچے نارمل۔
3 ۔سب بچوں کو تھیلیسیمیامائنر۔
4 ۔چند بچے نارمل، چند کو تھیلیسیمیامائنر۔


بچوں میں غصہ ، وجوہات اور بچاؤ


اہم چیزیہ ہے کہ ایسی شادی کے نتیجے میں کوئی بچہ تھیلیسیمیامیجرکا مریض نہیں ہوسکتا اگر خراب BETA GENE دونوں والدین میں ہو اور اتفاقاً والدین اپنے بچے کو خراب جین منتقل کریں تو چونکہ اب بچے کے پاس ایک بھی نارمل BETA GENE نہیں ہے، اس لئے وہ نارمل ہیمو گلوبن نہیں بناسکے گا۔ اس کیفیت کو بیٹا تھیلیسیمیامیجر یا شدیدبیٹا تھیلیسیمیاکہتے ہیں۔ یہ تھیلیسیمیاکی وہ قسم ہے جو مہلک ہے یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر دونوں والدین میں بیٹا تھیلیسیمیاکی Gene موجود ہے تب بھی لازمی نہیں ہے کہ ہرنومولودکومیجرتھیلیسیمیاہوگا یہ صرف اتفاق کی بات ہے کہ بچوں میں تھیلیسیمیاآئے یا نہ آئے۔ حمل کی درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔
25-1 فیصد اتفاق ہے کہ بچہ بالکل نارمل ہو اور اس میں نہ معمولی قسم کا اور نہ شدید نوعیت کا تھیلیسیمیاہو۔
50-2 فیصد اتفاق ہے کہ بچوں میں معمولی نوعیت کا تھیلیسیمیامائنر منتقل ہوجائے۔
25-3 فیصد چانس ہے کہ بچے میں شدید قسم کا تھیلیسیمیامنتقل ہوجائے۔ یاد رہے کہ یہ اتفاق ہرحمل کے لئے ہے، یہ نہیں کہ اگر پہلا بچہ تھیلیسیمیامیجرمرض کا مریض ہے تو آئندہ ہونے والے بچے اس سے محفوظ ہوگئے، تمام بچے میجر تھیلیسیمیاکے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ پہلے بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ معمولی یا مائنر تھیلیسیمیابذات خود کوئی قابل ذکرمرض نہیں کیوں کہ اس کی علامات بہت خفیف ہوتی ہیں۔ زیادہ تر افراد کو کسی قسم کی جسمانی، جنسی،ذہنی یا دماغی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اگر ان افرا دکا زندگی بھرخون کا معائنہ نہ کیاجائے توتمام عمران میں اس بیماری کی موجودگی کا علم نہیں ہوسکتا۔ اگر ان کے خون کا معائنہ کسی غیر متعلقہ مقصد مثلاً آپریشن یا دوران حمل یا خون کا عطیہ دینے کے لئے کیا جائے تومرض کی موجودگی کا شبہ ہوجاتا ہے جو کہ ایک خاص ٹیسٹ، ہیموگلوبین الیکٹروفورسس سے ثابت ہوجاتا ہے اور اس فرد میں تھیلیسیمیامائنر کی تشخیص ہوجاتی ہے۔
شدیدتھیلیسیمیاخون کی ایک مہلک بیماری ہے، اس میں اور تھیلیسیمیا مائنر میں جو قدرمشترک ہے وہ صرف تھیلیسیمیاکالفظ ہے باقی ہر لحاظ سے یہ دو بیماریاں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتاہے۔ اس بیماری میں پیدائش کے تین یا چار ماہ کے اندر بچے میں خون کی انتہائی کمی ہوجاتی ہے اور اس کی جان بچانے بچانے کیلئے باقاعدہ تازہ خون دیناپڑتاہے، وقت کے ساتھ ساتھ یرقان بھی ہوجاتا ہے۔ چہرے کی ہڈیاں بڑی ہوجاتی ہے ، تلی اور جگر بڑھ جاتے ہیں، پیٹ پھول جاتا ہے اور چہرے کا رنگ سیاہ پڑجاتاہے یہ سب تبدیلیاں ان بچوں کو کچھ اس طرح بنا دیتی ہیں کہ معالجین دور ہی سے اس بیماری کے مریض کی تشخیص کرلیتے ہیں۔ ان بچوں کی زندگی کا دارومدار خون کی مناسب فراہمی پر ہوتاہے، یہ بچے عام طورپرپانچ ،پندرہ یا بیس سال کی عمر کے درمیان فوت ہوجاتے ہیں۔یہ بچے نہ صرف بیماری کے ہاتھو ں تکلیف اٹھاتے ہیں بلکہ بار بار خون کی منتقلی سے جسم میں فولاد کے جمع ہونے اور خون سے لگنے والی بیماریوں یعنی ہیپاٹائٹس اور ایڈزجیسے موذی امراض کا بھی شکارہوجاتے ہیں۔تھیلیسیمیامیجرسے بچاؤ ممکن ہے لیکن ایک طویل مدت کی جدوجہد کے باوجود،سرکاری طورپراس طرف توجہ نہیں دی گئی۔تھیلیسیمیاسے تحفظ کیلئے قانون سازی ضروری ہے۔اس طرح نہ صرف ملک میں موجود تھیلیسیمیامائنر میں مبتلا افراد کی تعداد معلوم ہوسکتی ہے بلکہ ان کی وجہ سے اس بیماری کے پھیلاؤ پرقابوبھی ممکن ہے۔
ملک میں ایک کروڑ سے زائد تھیلیسیمیامائزافراد کی موجودگی کا محتاط اندازہ اس بڑے خطرے کی نشاندہی کررہا ہے جو ہر دس تھیلیسیمیا میجرمیں مبتلا بچوں کی صورت میں جنم لے رہے ہیں اور تقریباً ساٹھ ہزار ایسے بچے آٹھ سے دس سال اذیت ناک گزارتے ہیں۔ جن کے انتقال خون پر سالانہ خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود نہ تو ان کو صحت مند رکھا جاسکتاہے اور نہ ہی یہ زندہ رہ پاتے ہیں ہڈی کے گودے کی پیوندکاری اس کا واحد علاج ہے جس کے اخراجات50 لاکھ فی بچہ ہے۔
تھیلیسیمیاکے باعث ہربرس ہونے والی ہزاروں اموات سے بچا جاسکتا ہے، اس کے لئے ہر فر دکابلڈٹیسٹ ضروری ہے جس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ متعلقہ فرد تھیلیسیمیامائنر کاشکار تو نہیں ہے، ابتدائی ٹیسٹ میں تصدیق ہونے پر حتمی تصدیق کے ٹیسٹ بھی موجود ہیں فی فرد چند سو روپے خرچ کرکے یہ تصدیق کی جاسکتی ہے۔
جن خاندانوں میں آپس میں شادی کا رواج ہے ان کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے اس بات کا لازمی خیال رکھیں کہ تھیلیسیمیامائنرکے لڑکے اور لڑکیوں کی آپس میں شادی نہ کی جائے۔

دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...