اِس عید پر نینُو ہوجائے؟

516

وہ سب چارپائی کے اردگرد گینگ بنا کر کھڑے تھے۔
’’ابے اُسکو دیکھ! بیچارہ اکیلا کھڑا ہے‘‘ کجلُو نے آنکھ مارتے ہوئے سب کی توجہ اُس چھترے کی طرف دلائی جو اِن سب کیطرح ہٹاکٹا اور لمبا چوڑا نہیں تھا۔
’’ہُر ر ر ر ر ر!!!‘‘ شیرو نے کہہ کر لات زمین پر ماری تو جھانجھر کی آواز سے وہ بیچارہ سہم کر ایک کونے میں گھس گیا۔ باقی سب یہ دیکھ کر اُس پر کتوں کی طرح (معاف کیجئے) بکروں کی طرح ہنسنے لگے۔
نینُو اپنے مالک کیساتھ مانسہرہ سے سفر کر کے شہر کی بکرا منڈی لایا گیا تھا۔ اِسکی آنکھوں کی شہد جیسی رنگت کی بناء پر اِسکے مالک نے اِسکا نام نینو رکھا تھا۔ پر قسمت کا مارا اِس لیے کونے سے بندھا پڑا تھا کیونکہ یہ وضع قطع سے بکرا منڈی کا زیرو سائز ماڈل تھا۔
’’لگتا ہے اِسکے مالک نے اِسکو سوُپ اور سیلیڈ پر پالا ہے‘‘ پہلوان نے ٹانگ اُٹھا کر زور سے چارپائی پر مارتے ہوئے کہا تو باقی سب بھی ہنس ہنس کر لم لیٹ ہوگئے۔
’’مجھے تو لگتا ہے اِس نے چھُری دیکھتے ہی مر جانا ہے‘‘ گُلّو نے یہ کہہ کر زور کا ٹھٹھا لگایا تو جٹّا ہنستے ہنستے الٹا ہوگیا۔
’’اِس بیچارے سے کیا گوشت نکلے گا، اِس کو تو خود گوشت کھانے کی ضرورت ہے‘‘ جٹّے نے لیٹے لیٹے جگت لگائی۔
سب زور زور سے ہنس رہے تھے اور نینو کونے سے لگا اپنی معصوم خالی خالی آنکھوں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔
اُسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ ویسے بھی دنیا میں بدمعاشی کا زیادہ راج ہے اور شریف کی زندگی یہی ہے کہ وہ شیر ہو کر بھی آنسوؤں سے روتا ہے۔
بدمعاش بکروں کے مالکان مونچھوں کو تاؤ دئیے بڑے اکڑ کر کھڑے تھے ۔ اِن بکروں کی قیمتیں آسمان سے گپیں لگا رہی تھیں کہ اِسی اثناء میں ایک رینج رووَر بڑے سٹائل سے وہاں آ کر رُکی۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور اُس میں سے سفید شلوار قمیض اور کالی ویسٹ کوٹ میں ملبوس ایک جوان برآمد ہوا۔ بورے بکرا منڈی کی نظر اُس پر منجمد ہوگئی۔
’’اوئے! تگڑی آسامی آئی ہے‘‘ کجلُو نے سائیڈ مارتے ہوئے شیرو سے کہا۔
’’یہیں آرہا ہے، دیکھ کس کی قسمت چمکتی!‘‘ کجلو نے زیرِلب اطلاع دی۔
بدمعاش بکرے اپنا اپناسر اکڑا کر کھڑئے ہوگئے۔ کسی نے ادا سے دم ہلائی تو کسی نے سینگ گھما کر اُسے خود کیطرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
وہ چلتا ہوا سیدھا اِس گینگ کے پاس سے گزرا اور نینو کے پاس جا کھڑا ہوا۔
’’صاحب! یہ دیکھیں کیسے صحت مند بکرے ہیں۔ آپ کدھر چلے گئے؟‘‘مالکان نے اُسے آواز لگائی۔
’’نئیں بھئی۔۔۔یہ سیریلیک بکرے ہیں ، اِنکے گوشت کا کوئی فائدہ نئیں ! بکرا جتنا اونچا لمبا ہو، گوشت اُتنا ہی ڈھیٹ اور بدمزہ ہوتا ہے‘‘
اُس نے تو جیسے اُنکی دھرتی ہلا دی۔
’’یہ لگتا ہے کسی گاؤں واؤں کا ہے‘‘ اُس نے نینو کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’جی جناب!یہ مانسہرہ سے آیا ہے۔ قدرتی پھول بوٹوں پر پلا ہے او ر صاف آب و ہوا میں جوان ہوا ہے‘‘
نینو اپنے مالک کو حیرت سے تکنے لگا۔ اُسے کبھی اندازہ ہی نہیں تھا کہ اُس میں اتنے گُن ہیں۔
’’یہی چاہیئے!‘‘ اُس شخص نے نینو کے مالک کو منہ مانگی رقم تھمائی اور نینو کو ساتھ لئے چلنے لگا۔
نینو نے گزرتے گزرتے ایک فاتحانہ مسکراہٹ بدمعاش بکروں کر دی اور یہ کہہ کر چلتابنا۔۔۔
’’دوسروں کو باتیں کرنا آسان اور اپنی اصلیت کو ہضم کرنا کافی مشکل ہے۔ ناپ تول کے بولو تاکہ تمھارا بھاؤ بڑھے!‘‘

تبصرے
Loading...