تھائی رائڈ: ایک خاموش مرض
تھائی رائڈ ایک خاموش بیماری کا نام ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ڈاکٹر بھی اس مرض کی تشخیص نہیں کرپاتے۔پاکستان میں اینڈوکرانولوجسٹ کی شدید کمی ہے خصوصاً دیہی علاقوں میں اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہیں جبکہ یہ مرض تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور جن خاندانوں میں یہ مرض موجود ہو ان خاندانوں کو آپس میں شادیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
تھائی رائیڈ کی بیماری کی مردوں میں شرح چار سے پانچ فیصد اور خواتین میں 10 سے 12 فیصد تک ہے تاہم 90فیصد مریضوں میں تشخیص نہیں ہوتی اس بیماری کی علامات ایسی ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی ہر شخص میں پائی جاتی ہے، اس لیے اس کی شناخت نہیں ہو پاتی ۔ ہر گلٹی کینسر نہیں ہوتی اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم تمام گلٹیاں خطرے سے خالی نہیں ہوتیں اس لیے اس بارے میں ڈاکٹرز کو بڑی توجہ سے مریض کی رہنمائی کرنی چاہیے اس بیماری سے بے شمار پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جس میں خواتین میں بانجھ پن بھی شامل ہے، بغیر ضرورت کے سرجری نہیں کرانی چاہیے اس بیماری کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے تاہم تھائی رائیڈ کینسر میں بھی زندگی موت کا مسئلہ نہیں ہوتا اس بیماری میں ٹی ایس ایچ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص ممکن ہے۔
تھائی رائیڈ کا ٹیسٹ پیدائش کے پہلے ہفتے میں ہو جانا چاہیے۔ اس مرض میں ریڈیو ایکٹو ٹریٹمنٹ بھی ممکن ہے۔ تھائی رائیڈ میں اچھی ادویات، سرجری اور دیگر طریقوں سے علاج ممکن ہے تاہم سرجری صرف کینسر کے خطرے کے باعث ہی ہونی چاہیے۔ مریضوں کو ڈاکٹرز کے مشورے کے ساتھ ادویات اور ان کی خوراک لینی چاہیے۔ تھائی ایکسین کیلشیم آئرن اور وٹامنز کے ساتھ نہیں لینی چاہیے تھائی ایکسین کے ایک گھنٹہ بعد تک کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
تھائی رائیڈ گلینڈ کی شکل تتلی کی مانند ہوتی ہے۔گلے میں جہاں ٹائی باندھی جاتی ہے،نرخرے کے نیچے ہوتا ہے۔ہمارے جسم کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل کو تھائی رائیڈ کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا خارج کردہ ہارمون جسم کے تمام خلیوں کو توانائی دینے میں مددگار ہے۔ اس کی بہت ساری بیماریاں ہیں لیکن تین مشہور ہیں۔ گلہڑ آیوڈین کی کمی سے گلے کوپھلا دیتا ہے۔ ہائپو تھائی رائیڈ میں ہارمون کم مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ تھکاوٹ ، کمزوری، جسم کی سوجن، وزن کا بڑھنا، دل کی دھڑکن، اسکن پرابلم، بھوک کی کمی وغیرہ ہوتی ہے جبکہ ہائپر تھائی رائیڈ میں وزن کم ہوتا ہے۔ غصہ، چڑچڑاپن مزاجی کیفیت بدل جاتی ہے۔ آیوڈین کی کمی کا مسئلہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی درپیش ہے۔ آیوڈین والا نمک بھی ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ سمندری مچھلی میں بھی آیوڈین ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔ اس کا لیبارٹری ٹیسٹ ہوتا ہے جو مہنگا بھی ہے مگر پتا چل جاتا ہے اور دوا تجویز کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ گولیاں ہیں پھر ریڈیو ایکٹیو آیوڈین ہے۔ پھر آپریشن ہے۔ بہرحال اس کا برابر معائنہ اور ٹیسٹ کراتے رہنا چاہیے۔ ڈپریشن، ذہنی طورپر معذوری، کمی اسی سے ہوتی ہے۔ آپ ڈاکٹر سے مشورہ کرکے ٹیسٹ کروائیں۔ اس کی زیادتی، کمی دونوں انسانی صحت کیلئے مسئلہ بن جاتی ہیں۔
تھائی رائیڈ ایک ایسی بیماری ہے جس کے بروقت علاج سے اس بیماری سے بچاجاسکتا ہے۔ تھائیرائیڈ کا علاج دوا اور آپریشن دونوں سے کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے اور اس بیماری میں ڈاکٹروں کے مشورے پرعمل کرنابہت ضروری ہے۔ تھائی رائیڈ،شوگر،مٹاپا سمیت دیگر بیماریوں کے جنم لینے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں اور ان کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے لہٰذا ایسی صورت میں فوری ماہر ڈاکٹروں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ تھائی رائیڈکی بیماری ہارمونل ڈیزیز ہے جس کی وجہ سے گلے میں سوجن ،چہرہ بگڑ جانا،سر کے بال جھڑ جانا،بانچھ پن سمیت دیگر بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔
تھائی رائیڈ کے مرض سے آنکھیں موٹی ہوجاتی ہیں، کھلنے کے بعد بند نہیں ہوتی اور نابینا ہونے کا امکان بڑھ جاتاہے۔ دنیا بھر میں تھائی رائیڈ کی بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے جس میں چھوٹی لڑکیوں میں ابتدائی 10سال سے قبل جسمانی تبدیلی ہونا،بچوں کا قد نہ بڑھنا سمیت دیگر مسائل شامل ہیں جس کا علاج انتہائی مہنگا ہے لیکن ابتدائی علامات میں طبی ماہرین سے مشورہ کرنے سے خرچہ کم ہوتاہے۔