استعمال شدہ تیل خطرناک ثابت ہوسکتا ہے
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس میں سچ کہیں توتیل کے بے دریغ استعمال کے بغیر پاکستانی باورچی خانہ ادھورا سا لگتا ہے ۔ مختلف کھانوں میں تو تیل استعمال ہوتا ہی ہے ، مگردیگر چیزوں میں بھی تیل کی ریل پیل ہوتی ہے۔ کچوری ، سموسے ،پکوڑے ، مچھلی فرائی ، کباب وغیرہ سب تیل میں ہی تیار ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ چیزیں ہرروز تو گھروں میں تیار نہیں ہوتیں ، مگر چھٹی کے دن یا کسی تہوار کے موقع پر ان اشیا کا اہتمام ضرور ہوتا ہے اور بھرپور ہوتاہے۔ جبکہ افطار تو ان تلی ہوئی چیزوں کے بغیر نامکمل سا لگتا ہے ۔ اب تیل کوئی سستی چیز تو ہے نہیں ، اس لیے اکثر گھروں میں ڈیپ فرائی کیا ہوا تیل ضائع کرنے کے بجائے دوسرے استعمال کے لیے رکھ دیا جاتا ہے ۔ لیکن کیا آپ جانتی ہیں کہ ایسا کرنا آپ کی صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر آپ بھی ڈیپ فرائی کے بعد پین میں بچ جانے والا تیل دوبارہ استعمال کرتی ہیں تو پھر یہ تحریر آپ ہی کے لیے ہے ، اسے پڑھیں اور آئندہ احتیاط سے کام لیں ۔
صحت کے لئے مضر، بچا ہوا تیل
کھانا بنانے کے لئے ایک ہی تیل کا استعمال بار بار ہونے سے اس میں ایسے مضر صحت عناصر جنم لے لیتے ہیں جوکئی قسم کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بار بار گرم ہونے سے تیل کی بوختم ہوجاتی ہے اور اس میں اینٹی آکسیڈنٹس بھی باقی نہیں بچتے ،، جس کی وجہ سے کینسر پیدا کرنے والے اجزا پیدا ہوجاتے ہیں۔ تیل کو جب دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے تو یہ خطرناک اجزا اس میں تلی جانے والی چیز میں شامل ہوجاتے ہیں اور ہماری صحت کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ ان اجزا کے کینسر کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول ، تیزابیت ،گلے کے امراض اور الزائمر جیسی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں ۔
بیماریوں کی وجہ
اسپین میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایسا تیل جسے ایک بار گرم کرکے استعمال کرلیا گیا ہو اس کو دوبارہ گرم کرنے سے یہ تیل زہر آلود ہوجاتا ہے اور انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یونیورسٹی آف باسک کنٹری کے محققین نے ثابت کیا کہ خوردنی تیل میں اشیا پکانے کے بعد اگراس استعمال شدہ تیل کو دوبارہ استعمال کرنے کیلئے گرم کیا جائے تو اس میں زہریلے مرکبات شامل ہوسکتے ہیں اور ایسے زہریلے تیل میں اشیا پکانے سے غذائیں زہریلی ہوجاتی ہیں اور ان زہریلی غذاؤں کے استعمال سے کئی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جن میں دماغی امراض اور مختلف قسم کے کینسر شامل ہیں۔ لہٰذا ایسے تیل میں اشیا پکانے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ کینسر اور دماغی بیماریوں سے بچاؤممکن ہوسکے۔
تحقیق کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ تیل کو جب اچھی طرح گرم کیا جاتا ہے تو اس میں سے ایلڈی ہائیڈز نامی مرکبات خارج ہوتے ہیں جو فضا کو آلود ہ کرتے ہیں اور اگر یہ سانس کے راستے پھیپھڑوں میں چلے جائیں تویہ بھی صحت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور ان سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے ۔ اور جب یہی تیل دوبارہ گرم کیا جائے تو یہ ایلڈی ہائیڈز اور بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ جن سے دماغی امراض الزائمر اور پارکنسن ہوسکتے ہیں۔ تیل میں ایلڈی ہائیڈز اس وقت بنتے ہیں جب تیل میں فیٹی ایسڈ کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔ اور ان کی مقداراس وقت گھٹ جاتی ہے جب تیل کو گرم کیا جاتا ہے۔ انتہائی درجہ حرارت پر فیٹی ایسڈ بخارات کی صورت میں اڑ جاتے ہیں۔لہٰذا استعمال شدہ تیل کو دوبارہ استعمال نہ کیا جائے تو کئی طرح کی مہلک بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
باہر کی تلی ہوئی چیزیں خطرناک
بہت سے گھروں میں تلی ہوئی چیزیں بنانے کا رواج ہی نہیں۔ پکوڑے ،سموسے ، کچوریاں وغیرہ باہر کے ہی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ رمضان کا مہینہ ہو تو یہ چیزیں روزانہ ہی افطار کے وقت دسترخوان کی زینت بنتی ہیں ۔ تلی ہوئی چیزیں ویسے ہی کم استعمال کرنی چاہئیں ، مگر باہر کی تلی ہوئی چیزوں سے تو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہئے ۔ٹھیلے والے ہوں یا بڑے بڑے نامور دکان دار ، سب ہی ایک ہی تیل کو کئی کئی دن تک استعمال کرتے ہیں ، اور جیسے ہی وہ تیل ختم ہونے لگتا ہے اس میں مزید تیل شامل کردیتے ہیں یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اور اس پر مزید یہ کہ وہ تیل بھی انتہائی گھٹیا معیار کا ہوتا ہے ۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ایک تو غیر معیار تیل اور وہ بھی ایک سے زائد بار استعمال ہو تو اس میں تلی جانے والی چیزیں طبی اعتبار سے کتنی نقصان دہ ہوں گی ۔
اگر بہت ضروری ہو
تلنے کے لیے ہر بار نیا تیل صحت کے لیے بہتر ہے ، مگر یہ ایک مہنگا عمل ہے۔اب یہ کس کو گوارا ہوگا کہ وہ ایک بار استعمال کے بعد تیل سے بھری پوری کڑاہی کہیں انڈیل دے۔اس لیے ہم آپ کو استعمال شدہ تیل کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے چند احتیاطیں بتاتے ہیں جن پر عمل کرکے آپ اس مضر صحت تیل کے نقصانات کو بہت حد تک کم کرسکتی ہیں۔
*۔تیل کو استعمال کرکے پہلے اسے اچھی طرح ٹھنڈا کرلیں ،پھر اسے کپڑے وغیرہ سے چھان کر کسی ایئرٹائٹ برتن میں اگلے استعمال تک محفوظ کرلیں ۔چھاننے سے یہ ہوگا کہ تیل میں موجود اناج کے ذرات جو تیل کو جلد خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں وہ صاف ہوجائیں گے۔اور ایئرٹائٹ برتن کا فائدہ یہ ہوگا کہ ا س میں جراثیم وغیرہ کے شامل ہونے کا امکان ختم ہوجائے گا۔
*۔بچے ہوئے تیل کا رنگ اور گاڑھا پن چیک کریں ۔ اگر تیل چپچپا ہونے کے ساتھ سیاہ ہو گیا ہے اور اس میں سے عجیب سی بو بھی آ رہی ہو تو بغیر کچھ سوچے اسے پھینک دیں.۔اس کا استعمال بھول کر بھی نہ کریں۔
*۔اگر تیل توقع سے بہت جلد گرم ہونے لگے تو اسے بھی پھینک دینا چاہئے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس میں زہریلے مرکبات بہت زیادہ جمع ہوگئے ہیں ۔جو تیل کو فوری گرم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
صحت کے لیے چند مفید تیل
زیتون کا تیل:زیتون کے تیل کا استعمال اگر آپ کرتی ہیں تو نہ صرف کھانے کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے، بلکہ صحت بھی درست رہتی ہے. یہ دل اور جگر کے لئے اچھا ہوتا ہے۔
رائی کا تیل:رائی کے تیل میں چونکہ ا ومیگا ۔3 فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے، جو گھر بھر کی صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہوتا ہے. اس کے علاوہ اس میں مونوسیچوریٹیڈ فیٹ بھی کافی زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے، جو صحت کے لیے مفید ہے۔
ناریل کا تیل:ناریل کا تیل قدیم وقت سے ہی ہمارے باورچی خانے کی زینت میں اضافہ رہا ہے۔ اس میں بہت سارے متناسب عناصر پائے جاتے ہیں. ناریل کے تیل میں 92 فیصد سیچوریٹیڈ فیٹ پایا جاتا ہے۔ اس میں وہی چربی ہوتی ہے جو ماں کے دودھ میں ہوتی ہے یہ تیل زود ہضم بھی ہے۔
السی کا تیل:السی کا تیل آپ کے پورے خاندان کو صحت مند بنائے گا کیونکہ اس میں بڑی مقدار میں اومیگا ۔3 فیٹی ایسڈ پایا ذات ہے. السی کا تیل خواتین کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔اسے سورج کی روشنی یا گرم جگہ پر نہیں رکھنا چاہئے۔ ایک بار کھلنے کے بعد ریفریجریٹر میں رکھ کر چھ ہفتے تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سرسوں کا تیل:سرسوں کا تیل میں بیٹا کیروٹین ، اومیگا ۔3 فیٹی ایسڈ، الفا اومیگا ۔6 فیٹی ایسڈ، آئرن سے بھرپور ہوتا ہے،جو انسانی صحت کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔
سویا بین تیل :وہ لوگ جو اپنی صحت کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں انہیں کھانے میں سویا بین کا تیل استعمال کرنا چاہئے۔ اس میں سیچوریٹیڈ فیٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ، جو کولیسٹرول کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اینٹی آکسیڈینٹس بھی ہوتا ہے۔
مونگ پھلی کاتیل:مونگ پھلی کا تیل بھی صحت کے لئے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ اس میں مونو اور پ سیچوریٹیڈ، دونوں قسم کی چکنائی پائی جاتی ہے۔ یہ وٹامن ای کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔