لرزے کا مرض یا رعشہ کسی کو بھی ہوسکتا ہے!

1,646

پارکنسنز کو اردو میں عام طور پر رعشے کے نام سے جانا جاتا ہے۔یعنی کپکپانے کی بیماری۔۔۔انسانی دماغ ڈوپامائن نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے، جو پٹھوں اور عضلات کو لچک دار بناتا ہے اور جسمانی حرکات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم پارکنسنز سے متاثرہ افراد کا دماغ ڈوپامائن پیدا کرنا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے بازوؤں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں رعشہ، حرکت میں سست روی، اعصاب میں اکڑاؤ اور توازن کی خرابی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کرجائے تو خوراک نگلنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔ گوکہ یہ مرض کسی بھی شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد عام طور پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔اس کی بیماری کے شکار افراد کے لیے ہاتھوں میں پائی جانے والی مستقل لغزش و لرزش ایک ایسا معاملہ ہوتا ہے ، جو کبھی کبھی ان کے لیے انتہائی مشکلات اور بعض اوقات سخت شرمندگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ حقیقت میں وہ سماجی سرگرمیوں سے کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق اعصابی بیماری پارکنسنز سنڈروم لرزے کی ایک بڑی وجہ ہے ، جس سے بازو ، سر ، پلکیں اور دیگر اعضا کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں ، تاہم ہاتھوں میں یہ لغزش بظاہر واضح دکھائی دیتی ہے۔
وجوہات
کیفین کا زیادہ استعمال،انٹی بائیوٹکس اور پرسکون رکھنے والی ادویات سے ہاتھوں میں وقتی کپکپاہٹ آسکتی ہے لیکن اگر یہ مستقل رہے تو ڈاکٹر سے رابطہ ضروری ہے کیونکہ یہ پارکنسن کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔
علامات
اس مرض کے تین اہم نتائج نکلتے ہیں، پہلے عضلات سخت ہوجاتے ہیں پھر کم زور اور آخر میں ان کی حرکت محدود ہوجاتی ہے اور یوں مریض روزمرہ سرگرمیاں انجام نہیں دے پاتا۔ اگر ادویات کے ذریعے ڈوپامائن درست سطح پر آ بھی جائے تو یہ مسائل برقرار رہتے ہیں۔ تاہم فزیوتھراپی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔رکنسنز کی ایک عام علامت یہ ہے کہ مریض چلتے چلتے یا بستر سے اٹھتے وقت آگے یا پیچھے کی طرف گرجاتا ہے، جب کہ دوسری اہم علامت ’فریزنگ گیٹ ‘ ہے یعنی جب وہ بستر سے اٹھتا ہے اور چلنا چاہتا ہے اس کا پہلا قدم نہیں اٹھتا۔ مریض آہستہ چلتا ہے ، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے رک کر مڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘
بچاؤ
عضلاتی انحطاط کے اس مرض کا مکمل علاج ممکن نہیں لیکن درست اور بروقت علاج سے اس کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ادویات ، جسمانی ورزش اور اگر ضرورت ہو تو آپریشن کی مدد سے مریض کی حالت میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات دیگر اعصابی مسائل یا سر کی چوٹ کی وجہ سے بھی اس قسم کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین تجویز کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ دستیاب نہیں جو اس مرض کی تشخیص کرسکے۔ اس لیے تفصیلی اعصابی معائنے پر انحصار کیا جاتا ہے۔
چوں کہ یہ مرض حرکات و سکنات کو متاثر کرتا ہے، اس لیے فزیو تھیراپی کی مدد لی جاتی ہے، تاکہ مخصوص ورزشوں کی مدد سے مریض کسی مدد کے بغیر روزمرہ سرگرمیاں انجام دے سکے۔ توازن یا چال میں ہونے والی تبدیلی مریضوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور ان کے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔گرنے کا نتیجہ ہڈیاں ٹوٹنے اور عارضی یا مستقل معذوری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ چلنا، جسمانی قوت میں اضافے کی تربیت اور مخصوص جسمانی ورزشیں مریضوں کی چال کو متوازن بناتی ہیں اور انھیں گرنے کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ چلنا ایک ایسی محفوظ ورزش ہے جو نہ صرف توازن کو بہتر بناتی ہے بلکہ جسم میں آکسیجن کے انجذاب میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ تاہم اگر کسی اور طبی مسئلے کی وجہ سے مریض کو چلنے میں مسئلہ ہو تو ڈاکٹر اور فزیوتھراپسٹ کوئی متبادل ورزش تجویز کرسکتے ہیں۔ ورزش کے دورانیے میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ موروثی مرض نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس کی وجہ کا تعین کیا جاسکا ہے۔ پارکنسنز کا پچاس فی صد علاج ادویات سے اور بقیہ پچاس فی صد ایکسرسائز سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں اضافہ ہی ہوتا ہے تاہم درست علاج اور اچھی دیکھ بھال سے اس کی رفتا ر میں کمی آجاتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...