والدین کا خیال آخر کیسے رکھیں ؟
والدین ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہیں ، مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں ،یہاں تک کہ جب تک ہم بڑے نہیں ہوجاتے ہمارا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ہمارے والدین ہی کرتے ہیں ۔
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انہیں ہماری ضرورت پڑنے لگتی ہے ۔ جس طرح بچپن میں ہم اپنے ہر کام کے لیے اپنے والدین کو ڈھونڈتے تھے آج وہ اپنے کاموں کے لیے ہماری طرف دیکھتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے کردار بدلتے جاتے ہیں ۔زندگی کے ایک حصے میں وہ اپنی ضروریات کے لیے جس پر منحصر ہوتا ہے دوسرے حصے میں وہ اسی کا نگران بن جاتا ہے ۔ وز گققت کا پہیہ اسی طرح گھومتا رہتاہے ۔ لیکن کیا ہم اپنے کردار سہی طرح ادا کررہے ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے اکثرپوچھتے رہنا چاہیے۔
زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑمیں ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین کوکہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری طرح ہمارے والدین کی عمر بھی بڑھ رہی ہے ۔ وہ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں ۔ جو کل ہمارا سہارا بنتے تھے آج انہیں لاٹھی کی ضرورت ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ رب العزت کی جانب سے دیا گیا ایک زبردست موقع ہے جب ہم والدین کی عظیم محبت ، تعاون اور دیکھ بھال کاشکریہ ادا کرسکتے ہیں ، چونکہ اس بے لوث احسان کا بدلہ اتارناتو ہمارے بس کی بات نہیں ۔ اس مقصد کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے والدین کا خیال رکھنا ہے ۔ البتہ ہمیں پہلے یہ جاننا ہوگا کہ خیال رکھنا کہتے کسے ہیں؟
مجھے یاد ہے جب میرے والد آفس سے آتے تھے تو دن بھر کی تھکن کے باوجود ان کے چہرے پر مسکراہت اور آنکھوں میں ہمارے لیے ڈھیر ساری محبت ہوتی تھی ۔ مجھے نہی یاد پڑتا کہ انہوں نے مجھے یا میرے باقی بہن بھائیوں کو کبھی یہ جتایا ہو کہ وہ کس قدرتھکے ہوئے ہیں یا ان کے پاس ہم سے بات کرنے یا ہماری بات سننے کے لیے وقت نہ ہو۔ہم گھنٹوں پہلے سے ان کے آنے کا انتظارشروع کردیتے تھے اور جب وہ آجاتے تو انہیں اپنے پورے دن کی کہانیاں سناتے جن سے وہ کبھی بور نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہمیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہمارا دل کبھی نہ دکھے ۔
کیا ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں ؟ شام کو گھر آکر اپنے والدین سے بات کرتے ہیں ؟ انہیں مسکرا کے دیکھتے ہیں؟اگر نہیں تو اس کا مطلب کہ ہم غلط راستے پر ہیں ۔
گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کے باعث مجھے کبھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ گھر میں کوئی پریشانی ہے ۔ چاہے جیسا بھی وقت ہو میری خواہشات و ضروریات کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ۔ میرے ماں باپ مجھے ہمیشہ ایسے تمام تر حالات سے دور رکھتے تھے اور ساری پریشانیاں خود ہی جھیل لیتے تھے ۔ اب عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ کل جو زمہ داریاں میرے والدین کے اوپر تھیں اب مجھ پہ آتی جارہی ہیں او ر جن چیزوں کے بارے میں میرے والدین کو سوچنا ہوتا تھا آج مجھے ان کے متعلق فیصلے لینے ہوتے ہیں ، چاہے وہ مالی امور ہو ں یا دیگر گھریلو فیصلے۔ ہم سب کی ہی زندگی میں یہ وقت آتا ہے جب ہمیں حالات کو سنبھالنا ہوتا ہے ۔ جب ہمارے والدین کے بجائے ہمیں صبر اور برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
تو کیا ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اب ہمیں اپنے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ہے؟ فیصلے لیتے ہوئے نہ صرف اپنی اور اپنے بچوں کی بلکہ اپنے والدین کی بھلائی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ؟
یہ حقیقت ہے کہ ہم جنھیں زندگی بھر اپنا سربراہ مانتے آئے ان کے بارے میں یہ سوچنا مشکل ہے کہ وہ اب ہماری محبت اور توجہ چاہتے ہیں ۔ جن پر ہماری دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری تھی اب ہمیں ان کی دیکھ بھال کرنی ہے ، لیکن اگر ہم والدین کو ہی اپنا رول ماڈل بنا لیں تو یہ ذمہ داری ہمیں ذمہ داری نہیں لگے گی ۔
ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمارے والدین کے ساتھ ہمارا رشتہ کمزور ہونے لگے ہم یہ سوچیں کہ ایسے موقع پہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے یا وہ اس تعلق کو پھر سے کس طرح استوار کرتے ۔
اپنی زندگی کے دیگر امورمیں بھی ہم جب کبھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں تو کسی تجربہ کار شخص سے مشورہ لیتے ہیں ۔ دیکھ بھال کرنا یا خیال کرنا کیا ہوتا ہے یہ ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح ہم نے باقی چیزیں ان سے سیکھیں ہیں ہمیں خیال رکھنا بھی اپنے والدین سے ہی سیکھنا چاہیے۔
اگر ہم یہ ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف ہمارے یہ زندگی بلکہ آئندہ آنے والی دائمی زندگی بھی ہمارے اس عمل سے سنور سکتی ہے اور ہم اپنی اولاد کے سامنے بھی ایک اچھی مثال قائم کرسکتے ہیں۔