مہندی:شادی بیاہ ، تہوار اور تقریبات کا لازمی جزو

1,110

آج کل شادیوں کا سیزن عروج پر ہے۔ جدھر دیکھو ڈھولک کی تھاپ سنائی دے رہی ہے ۔بازاروں اور شاپنگ مالز میں رش بڑھتا ہی جارہاہے۔ ہر کوئی اپنے جگمگ کرتے ملبوسات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ دلہن صاحبہ نت نئے میگزین اور نیٹ سے جہاں اپنے شراروں اور فراکوں کے ڈیزائن ڈھونڈنے میں مصروف ہے وہیں ہتھیلیوں پر سجنے والی مہندیوں کے ڈیزائن کی فکر میں بھی غلطاں دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف گہماگہمی اور رونق ہی رونق نظر آتی ہے۔ کسی کوشادی کے انتظامات کی فکر تو کسی کو پالرسے تیاری کی، کسی کو میچنگ کی فکر تو کسی کو اپنے ہیئر اسٹائل کی، سج دھج کے معاملے کوئی کسی سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں۔

مہندی لگانے کی روایت جہاں مشرقی اقدار کا احاطہ کرتی ہے وہیں اسے برصغیر اور مشرق وسطیٰ کے خطّے میں خوشی کے تہواروں کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ صنف نازک کے دیدہ زیب ڈیزائنوں سے سجے ہاتھ باذوق ہونے کی ترجماتی کرتے ہیں۔ جہاں تک تقریبات اور تہواروں کا تعلق ہے تو یقیناًہر خوشی کی تقریب میں مہندی لازمی طروپر موجود رہتی ہے۔ لیکن دو ایسے خاص موقع ہیں جو اس کے بغیر قطعی ادھورے معلوم ہوتے ہیں، پہلا شادی بیاہ کے موقع پر اور دوسرا چاند رات پر۔

شادی بیاہ ہو یا کسی اور تقریب میں کھنکناتی اور خوش رنگ چوڑیوں سے سجی کلائیاں اور مہندی میں رچے سوندھی سی خوشبو سے مہکتے ہاتھ ہمیشہ ہی سے صنف نازک کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ہاتھوں پر لگی مہندی کبھی تو پیا گھر جانے کا سندیس دیتی ہے تو کبھی مہندی لگی ہتیھلیوں کی ڈھولک پر تھاپ شادی کی محفلوں میں عجیب ہی سماں باندھ دیتی ہے۔ رنگِ حنا کا جادو جہاں ہاتھ پاؤں اور کلائیوں تک سرچڑھ کر بولتا ہے وہیں مشرقی تہذیب کی بھرپور عکاسی بھی کرتا ہے۔

ہماری مشرقی تہذیب میں مہندی لگے ہاتھوں اور کلائیوں میں کھنکتی چوڑیوں کو سہاگ کی علامت سمجھا جاتاہے۔ مہندی جہاں ہماری قدیم ثقافت کا پتا دیتی ہے وہیں یہ حوالہ بھی بنتی ہے کہ ہتھیلیوں کے کینوس پر مصوری کے اعلیٰ نمونے اب محض تصوراتی نہیں رہے۔ دورِ جدید میں مہندی لگانے کو بھی اب فن کے طورپر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ جس فن کو پہلے روایت کے طورپر بڑی بوڑھیوں سے سیکھا جاتا تھا اب وہ مختلف اداروں میں باقاعدہ سکھایا جاتا ہے۔ جہاں مہندی کو نقش کرنے کے ڈھنگ میں تبدیلی آئی ہے وہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تیاری میں بھی بہت بدلاؤ آیا ہے۔

گئے زمانے میں خواتین مہندی کے پتوں کو پیس کر حاصل کرنے والے سفوف میں پانی ملاکر مہندی تیار کیا کرتی تھیں اور انگلیوں کی پوروں سے سکھیوں کی ہھتیلیوں پر لگایاکرتی تھیں، جہاں اس میں بہت وقت صرف ہوتا تھا وہیں یہ قدرے مشکل امر بھی تھا۔ بعد ازاں اسے تنکے سے لگانے کا رواج عام ہوا اور آج موجودہ دور میں مہندی کی مانگ میں اضافے کے بعد یہ کون اور ٹیوب کی شکل میں دستیاب ہے۔ مہندی کے ڈیزائنوں کے انتخاب میں مختلف عمر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی پسندکو ملحوظِ خاطر رکھاجاتا ہے۔ آج کل عربی،انڈین، سندھی،راجھستانی، ایرانی اور سوڈانی ڈیزائن بہت عام ہیں ۔ عربی اور انڈین ڈیزائن کافی بھرے بھرے جبکہ راجھستانی اور سوڈانی مہندی کے ڈیزائن باریک اور کم بھرے ہوتے ہیں۔ سندھی مہندی لگانے میں ایک خاص قسم کی کالی مہندی استعمال ہوتی ہے۔ تاہم جدید ڈیزائنوں میں افشاں سے مزین اور نگینوں سے آراستہ مہندی کے نقش و نگار خواتین میں زیادہ مقبول ہیں۔

عام طور پر دلہنوں کو جو مہندی لگائی جاتی ہے وہ خاصی نفیس طرز کی ہوتی ہے۔ یہ ہاتھوں سے لے کر کلائیوں تک سجائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ پیروں پر بھی خوب صورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ مہندی لگانے کے لیے رنگت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ مہندی لگانے والی خواتین کو اتنا سمجھدار ہونا چاہیے کہ انھیں مختلف رنگت والی عورتوں کے لیے مہندی کے رنگ تیز اور ہلکے کرنے کا ہنر ڈھنگ سے آتا ہو۔ کیونکہ جن خواتین کے ہاتھوں کا رنگ قدرے صاف ہوتا ہے ان پر ایک تو محنت کم کی جاتی ہے اور دوسرا کوئی بھی ڈیزائن ایسے ہاتھوں کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ جبکہ سانولی رنگت والی ہتھیلیوں پر بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہاتھوں پر بھرے بھرے نقوش اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ وہ گہرے بھورے رنگ کا تاثر دینے لگتے ہیں اور آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...