عمر بڑھنے کے ساتھ غذا میں تبدیلی ضروری

1,857

عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ غذا کی مقدار میں خود بہ خود کمی واقع ہونے لگتی ہے،لیکن اس قدر بھی نہیں جس قدر لوگ تصور کرتے ہیں۔ ساٹھ سے ستّر سال کے مردوخواتین میں بیس سے تیس سال کے جوانوں کی بہ نسبت غذا کی ضرورت ایک تہائی کم ہوسکتی ہے۔ضرورتِ غذا پینتالیس سال سے پینسٹھ سال کی عمر میں تیزی سے ،لیکن پینسٹھ سے پچھتّر سال کی عمر میں آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد ایک جیسی رہتی ہے۔

مقدارِ غذا میں کمی کے باوجود معیارِ غذا میں بہتری ضروری ہے۔مجموعی طورپر وہی غذا مناسب ہے جو عمر کے دیگر حصوں میں کھائی جاتی ہے۔ ایسی غذاؤں میں اضافہ کیا جائے جن میں معدنیات اور حیاتین کثرت سے موجود ہوں۔مثلاً سبزیاں اور پھل۔ضروری حیاتین ب مرکب اور خرد مقدیات بھی ریشے دار سبزیوں اور پھلوں سے حاصل ہوجاتے ہیں۔ بڑھاپے میں عموماً فولاد کی کمی نہیں ہوتی۔اگر فولاد کی کمی سے کم خوفی ہے تو غالباً بواسیر،زخمِ معدہ یا آنتوں میں کسی اور مقام سے خون ضائع ہورہا ہے جس کا سراغ لگایا جائے۔ بغیر ملائی کے دودھ اور دہی سے مناسب کیلشیم مل جاتا ہے۔

اکثر دانتوں کے مسائل کی وجہ سے سخت غذائیں ترک کرناپڑتیں اور نرم صاف شدہ غذا کھانا پڑتی ہے اور ایسی غذاؤں میں ریشے کی مقدار کم ہوتی ہے۔ ریشے میں کمی کی وجہ سے قبض، بواسیر، سوزش قولون،سرطانِ قولون، سنگِ مرار، خون میں افراطِ کولیسٹرول و حلوین واقع ہوتے ہیں۔ صاف شدہ غذاؤں سے حیاتین اور معدنیات کی کمی اور تانبے،کرومیئم اور جست کی خصوصی کمی ہوجاتی ہے۔کرومیئم کی کمی سے جسم میں شکر کا استعمال نامناسب اور خون میں فرازِ شکر ہوتا ہے۔ جبکہ جست کی کمی سے زخموں کا اندمال، مامونی نظام اور عفونتوں کا سدِ باب متاثر ہوتاہے۔ بوڑھوں کو کچلی ہوئی ریشے دار ترکاریاں،سبزیاں اور تازہ پھل دینے چاہئیں۔ الیکٹرانک مشین وغیرہ کی مدد سے ایک مکمل و متوازن غذا کو پیس کر یکجان بنایا جاسکتا ہے۔

ہمیشہ غذا کے انتخاب میں یہ خیال رکھا جائے کہ وزن نہ بڑھ جائے۔ اس عمر میں عضلات کم اور چربیلی بافتیں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ مٹاپے کے سدِباب کے لیے غذا سے زیادہ حرارے دار غذائیں مثلاً چینی اور چکنائی کم کردیں۔ قوا کے انحطاط سے بصارت ،ذائقے اور شامہ کی قوت میں اضمحلال آتا ہے،اس لیے غذائیں ذائقے دار اور خوشبودار ہوں۔بوڑھے افراد کو یہ بات ذہن نشین کرادی جائے کہ اس عمر میں ہر چند ان کی مقدارِ غذا کم ہوگئی ہے مگر ضروریاتِ مقدیات کم نہیں ہوئیں۔ اب بھی ان کے لیے لحمیات،کاربیدہ، روغنیات، معدنیات، حیاتین مناسب مقدارو معیار میں دستیاب ہونا ضروری ہے۔ اگر بوڑھے لوگ اپنی غذا سے چینی و نمک خارج اور چکنائی کم کردیں تو ان کی غذا میں لامحالہ ایسی غذائیں بڑھ جائیں گی جن میں حیاتین اورخرد مقدیات وافر ہوتی ہیں۔

اگر مناسب مقدار اور معیاری غذا نہ ملے تو وزن میں کمی، بے حسی، تھکن،کام کاج میں عدم توجہ، بات کو پوری طرح نہ سمجھ سکنا وغیرہ کی شکایات واقع ہوتی ہیں۔ناگہانی فاقہ کشی سے سخت دُبلاپن، جسم کی چربی میں کمی،سوجن، فعلِ گردہ میں خلل، رات میں پیشاب کی زیادتی،اسہال،معدے اور آنتوں کے اندرونی استر میں ٹوٹ پھوٹ، ہاضم رطوبات میں کمی، جسمانی کم آبی و کمی نمک اور موت کا امکان ہوتا ہے۔

ابتدائے زندگی سے ہی غذا سے کیلشیم کی فراہمی مفید ہے نہ کہ صرف آخری عمر میں کہ جب ہڈیاں کیلشیم سے قلاش ہوجائیں۔ روزانہ ضروری کیلشیم آٹھ سو ملی گرام ہے جو شیرخانہ کی اشیاء،پتوں والی سبزیوں، شلجم کے پتوں، شاخ گوبھی، تقویت یافتہ سویادودھ سے حاصل ہو۔ بہرحال طبی مشورے سے کیلشیم کی گولیاں بھی لی جاسکتی ہیں۔

ابتدائے زندگی میں ضروری مقدار میں کیلشیم کی فراہمی بعد کی زندگی میں ہڈیوں سے کیلشیم کے ضایع ہونے کو روکتی ہے۔ اگر بچپن اور نوجوانی میں بہ کفایت کیلشیم نہیں ملے گا تو ہڈیاں دبیز نہیں ہوں گی، چنانچہ عمر کے ساتھ(خصوصاً خواتین میں) ہڈیاں جھنی ہوکر ٹوٹیں گی اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ آنے والے طبی، سماجی اور اقتصادی مسائل کی گرفت رہے گی۔ آخر عمر میں مرض واقع ہوجانے کے بعد کیلشیم کا استعمال گو مفید ہے مگر بعد از وقت ہے اورا س قدر نہیں جس قدر ابتدائے زندگی کی مناسب کیلشیم دار غذا ہے۔

ڈاکٹر اس عارضے کا علاج کیلشیم، حیاتین (د )کی گولیاں اور فلورائیڈ سے کرتے ہیں۔ کیلشیم بہ آسانی ،دودھ،دہی اور گھریلو پنیر سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جن سے لحمیات بھی حاصل ہوجاتی ہیں، جو اس مرض میں ازحد مفید ہیں۔ جو خواتین اس عمر میں نسوانی ہارمون(ایسٹروجن) استعمال کرتی ہیں ان کے اثر سے بھی کیلشیم کی کمی ہوسکتی ہے جس کی اصلاح کے لیے کیلشیم کی اضافی گولیاں ضروری ہیں۔ سبزیحاتی ایسٹروجن جو سویادودھ سے حاصل ہو بے ضرر اور مفید ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...