ایبولا کا پہلا شکار چمگاڈر سے کھیلنے والا بچہ تھا، سائنسدان

241

چمگادڑ میں ایبولا کے جراثیم موجود ہو سکتے ہیں، ماہرین
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جان لیوا ایبولا وائرس کی شروعات گنی کے دو سالہ بچے کے اس کھوکھلے درخت میں کھیلنے سے ہوئی جہاں بہت سی چمگادڑوں نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔
سائنسدانوں نے بچے کے گاؤں میں لوگوں سے ایبولا کی وجوہات جاننے کے لیے بات کی اور وہاں سے نمونے بھی اکٹھے کیے۔سائنسدانوں کی اس ٹیم کی تحقیقات ای ایم بی او مولیکیولر میڈیسن جرنل میں شائع کی گئی ہیں۔میلینڈو 31 گھرانوں پر مشتمل ایک گاؤں ہے جو گنی کے گھنے جنگلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس گاؤں میں بڑی تعداد میں چمگادڑ موجود ہیں اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایبولا وائرس انھی چمگادڑوں سے دو سالہ امیل اومونو کو منتقل ہوا ہے ۔ایبولا کے آغاز کی وجوہات معلوم کرنے والی ٹیم نے چار ہفتوں پر محیط تحقیقاتی سفر میں جب گاؤں کا دورہ کیا تو انھیں پتا چلا کہ یہ کھوکھلا درخت امیل کے گھر سے صرف 50 میٹر کے فاصلے پر موجود تھا۔گاؤں کے لوگوں نے ٹیم کو بتایا کہ گاؤں بچے اسی کھوکھلے درخت میں کھیلتے تھے۔چمگادڑوں کے ٹیسٹ کئے گئے جس میں ایبولا وائرس کے کوئی شواہد نہیں ملے لیکن پہلے کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا تھا کہ چمگادڑ میں ایبولا کے جراثیم موجود ہو سکتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق اگر زیادہ چمگادڑوں میں ایبولا وائرس ہوتا تو ایبولا وائرس کثرت سے اور بار بار پھیلتا۔ماہرین کا خیال ہے کہ چمگادڑوں کو مارنے سے ایبولا ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ ایسے کیڑے مکوڑوں اور مچھروں کو کھا جاتے ہیں جن سے ملیریا پھیلتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...