بچوں کو سزا سے نہیں منطق سے سمجھائیں

686

نئے والدین کو اکثر یہ مشورہ سننے کو ملتا ہے کہ اگر بچوں کے دل میں ڈر نہ ہو تو وہ بڑوں کی بات نہیں مانیں گے، ہر غلطی پر انہیں سزا ضرور ملنی چاہئے، بغیر سختی کے انہیں صحیح راستے پر لانا ممکن نہیں ۔یہ مشورہ دینے والے دراصل سزا اور سخت رویئے کو ہی بچوں میں نظم و ضبط کی ضمانت سمجھنے کی بھول کربیٹھتے ہیں ۔ لوگوں کے ذہن میں یہ مستقل تصور بنا ہوا ہے کہ بچوں کے ہر غلط رویے کو روکنے کے لئے انہیں سزا دینا بہت ضروری ہے۔مگر یہ بھی دیکھا گیا ہے ہ بچے پھر بھی شرارتیں کرنے سے باز نہیں آتے۔سزا کا اثر چند گھنٹوں میں ہی غائب ہو جاتا ہے اور وہ نظم و ضبط کے قوانین کو توڑنے کی نت نئی چالیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جب والدین کی جانب سے تمام کوششوں کے باوجود بچوں میں ڈسپلن کی شکایت گھٹنے کے بجائے بڑھنے لگی تو دنیا کے تمام ممالک میں ماہرین نفسیات کو یہ محسوس ہوا کہ بچوں پر سختی ، انہیں مارپیٹ کر سمجھانے اور سزا دینے کی تھیوری مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔ اور اب بچوں کی پرورش کے طور طریقوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

بچوں میں تبدیلی آگئی ہے

وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت تیزی سے بدل رہی ہے۔پہلے خاندانوں میں بچوں کو بھرپور محبت اور توجہ ملتی تھی ۔ ان کے ہر عمل پربڑوں کی نظر ہوتی تھی۔ خاندان میں بچوں کو سمجھانے اور ان کی تربیت کے لیے کئی لوگ ہوتے تھے۔ آج حالات پوری طرح بدل چکے ہیں۔ ایک طرف مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو دوسری طرف بڑے شہروں میں خواتین کی ملازمت کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے ۔ والدین کی غیر موجودگی میں بچے دن بھر گھر پر اکیلے رہتے ہیں۔ پھر آج کل طرزِ زندگی ایسا ہوگیا ہے کہ جس میں بچوں کی جسمانی سرگرمیاں محدود ہوکر رہ گئی ہیں ۔ اکیلے بیٹھ کر ویڈیو گیمز کھیلنا ، ٹی وی دیکھنا اور کمپیوٹر استعمال کرنا ،یہ وہ سرگرمیاں ہیں جن کی وجہ سے بچوں کی صلاحیت میں کمی آرہی ہے تو دوسری طرف ان کا رویہ تشدد آمیز اور جارحانہ ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے آج کے والدین کے لئے بچوں کی پرورش ایک بڑا چیلنج بن کر رہ گئی ہے۔ایسے میں اگر بچوں کو سزا دے کر ڈسپلن قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ان کے رویے پر اور زیادہ منفی اثر پڑتا ہے۔

بچے کوسمجھانا،مشکل مرحلہ

بچے کا کوئی بھی غلط رویہ دیکھ کر انہیں ایسا کرنے سے روکنا فطری ہے۔ ایک دو بار منع کرنے کے بعد بھی اگر وہ والدین کی بات نہیں مانتا تو انہیں شدید غصہ آتا ہے۔ ایسے میں وہ خود کو روک نہیں پاتے اور کئی بار بچے کے ساتھ ان کا رویہ پرتشدد ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ اپنے بھائی بہنوں سے جھگڑ رہا ہوتا ہے تو ماں اسے زور سے ڈانٹ کر اسی وقت خاموش کرا دیتی ہے اور اس غلط رویے کے لئے اس سے سوری بولنے کو کہتی ہے۔اس وقت بچہ بھی غصے میں ہوتا ہے اور اپنے بھائی یا بہن کی طرف دیکھے بغیر بے دلی سے سوری بول کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ماں کو ایسا لگتا ہے کہ اس کی اس کوشش سے بچہ نظم وضبط کا پابند ہوجائے گا لیکن اصل میں ایسا نہیں ہوتا ۔ سختی دکھا کر آپ بچے کو تھوڑی دیر کے لئے خاموش ضرور کرا سکتے ہیں، لیکن یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ۔ بچے کو ڈاٹنے یا سزا دینے سے پہلے اسے یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کہ آخر اس کی غلطی کیا ہے؟ اور اس غلطی سے اسے اور دوسروں کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ جب آپ اسے اسی طرح بار بار سمجھائیں گی تووہ دوبارہ اپنی غلطی نہیں دہرائے گا۔

اصلی مقصد کو سمجھنے کی کوشش کریں

ہر والدین کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ بچے کی پرورش کے دوران ان کا اصل مقصد کیا ہے ۔ جب بچوں کی صحیح پرورش کی بات ہو تو ایسی صورت میں اپنی انا کو بیچ میں نہ لائیں۔کچھ والدین بچوں کو صرف اسی وجہ سے ڈانٹتے ہیں کہ آخر اس نے ہماری بات کیوں نہیں مانی۔ اس سے بچے کا رویہ سدھرنے کے بجائے بگڑنے لگتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور ان کی عادات سدھارنے کے ساتھ ان کی شخصیت کو سنوارنا اور نکھارنا بھی ہمارا مقصد ہے ۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی باتیں بغیر سزا دیئے بھی سکھا سکتے ہیں۔ زیادہ سختی اور سزا سے بچے سدھرنے کے بجائے بگڑنے لگتے ہیں۔والدین کا ایسا رویہ بچوں کے لئے کس طرح نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

اپنے رویے کو متوازن رکھیں

آپ ہر لحاظ سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ بچے کو آسانی سے سزا دے سکتے ہیں۔ کئی والدین بچے پر صرف اپنا حق جتانے کے لئے اس کے ہر رویے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے بچے کے دماغ میں والدین کا بہت زیادہ خوف پیدا ہو جاتا ہے اور اعتماد اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ وہ صحیح کام کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ سب سے بڑی دقت یہ ہوتی ہے کہ سزا سے بچے کو اپنی خطا کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ سوچتا ہے کہ یوں ہی ڈانٹتے رہنا ممی پاپا کی عادت ہے۔ اسی لیے وہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ وہی غلطی دہراتا ہے. ایسے میں اگر آپ اسے ڈاٹنے کے بجائے یہ سمجھائیں کہ اس کی غلطی کیا تھی تو وہ دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرائے گا۔

ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں

نظم و ضبطکے پابند ،فرماں بردار اور سلجھے ہوئے بچے سب کو اچھے لگتے ہیں۔لیکن بچوں کو ایسا بنانے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ اس کی غلطیاں ڈھونڈ کر اسے ڈانٹتے رہیں۔ جب ہم بچے کے ساتھ ہمیشہ سخت برتاوکرتے ہیں تو وہ خود کو بہت اکیلا اور کمزور سمجھنے لگتا ہے.۔آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بچے اپنے دادا،دادی کی ہر بات آسانی سے کیوں مان لیتے ہیں؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ بچوں کے ساتھ ان کا رویہ محبت بھرا ہوتا ہے۔اس لئے اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے والدین اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اس سے بچے میں غصے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ باغی بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ منفی ہونے لگتی ہے اور ایسی صورت میں اسے نظم و ضبط کا پابند بنانااور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے

بات کرنے سے ہی بات بنے گی

آج کل والدین میں یہ مستقل سوچ بن گئی ہے کہ پیار محبت کے ساتھ بچے کو ڈسپلن کا پابند نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بچپن عمر کا وہ دور ہے جب انسان میں اعتماد کا احساس تیار ہورہا ہوتا ہے ، اگر بچوں کے ساتھ بہت زیادہ سختی برتی جائے گی تو ان کا اعتماد کمزور پڑ جائے گا۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ بات چیت کا آرام دہ اور پرسکون ماحول تیار کریں۔ ان کی جذباتی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اگردانش مندانہ طریقے سے ان باتوں پر عمل کیا جائے تو بغیر سزا کے بھی بچے کو ڈسپلن کا پابند بنایا جاسکتا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...