پیدائش سے قبل بچے کی جنس نہ بتانے کی وجوہات

132,483

ماں بننا کسی بھی عورت کی زندگی کا سب سے یادگار اور جذباتی تجربہ ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں بڑا ہونے لگتا ہے اسی کے ساتھ ہی ماں کے اندر احساس ذمہ داری اور ممتا بڑھنے لگتی ہے ۔

حمل کے دوران ایک عورت کئی مراحل سے گزرتی ہے۔ ہر تھوڑے دنوں میں کوئی نہ کوئی ٹیسٹ کبھی الٹرا ساؤنڈ ہوتا ہے ۔ الٹرا ساؤنڈ سے پتا چلتا ہے کہ بچہ کتنا بڑھ گیا ہے اور اس کی نشونما سہی انداز میں ہو رہی ہے یا نہیں ۔ الٹرا ساؤنڈ سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بچہ نارمل ہے اور یہ کہ اس کے تمام اعضا ٹھیک طرح سے کام کر رہے ہیں ۔ البتہ اس سہولت کا کئی بار غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے جیسے کہ بچے کی جنس جاننے کی کوشش کرنا۔

ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لڑکے کی پیدائش کو زیادہ ترجیح اور فوقیت دی جاتی ہے ۔اکثر والدین ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہر صورت بیٹے کی ہی خواہش ہوتی ہے ۔ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں اور جب انھیں پتا چلتا ہے کہ بیٹا نہیں بیٹی ہونے والی ہے تو وہ ابورشن کا راستہ اپنانے سے بھی نہیں گھبراتے۔کچھ طبی حلقوں کا یہ تک ماننا ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کی ایجاد کے ساتھ ہی بڑی خاموشی کے ساتھ ایک منظم جرم کو فروغ دینے کا آغاز بھی ہوگیا ہے ۔ جس کے باعث ابورشن یعنی اسقاط حمل کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔

دوران حمل ڈپریشن میں اضافہ

بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس معلوم کرنے کی مخالفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر خواتین بچے کی جنس جاننے کے بعد ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں ۔ جب کوئی عورت ماں بننے والی ہوتی ہے تو بچے اور ماں کے درمیان ایک رشتہ بن جاتا ہے ۔ اس تجربے کے دوران ماں بچے سے ایک جسمانی اور جذباتی تعلق قائم کر لیتی ہے ۔ لیکن جب ماں کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ اس کی کوک میں بیٹا ہے یا بیٹی ،تویہ رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے اور اس تعلق میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے ۔

کئی معاشروں میں آج بھی بچے کی جنس کا ذمہ دار ماں کو ٹہرایا جاتا ہے ۔ سسرال والے اور معاشرے کے دیگر پریشر گروپ بیٹا پیدا کرنے کے لیے عورت پرزور ڈالتے ہیں جس پرحقیقت میں اس کا کوئی ذور نہیں ۔یہاں تک کہ سائنسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بچے کی جنس کا تعلق ماں سے نہیں بلکہ باپ سے ہوتا ہے ۔ جب الٹرا ساؤنڈ سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ پیدا ہونے والی اولاد بیٹا نہیں بیٹی ہے تو سب کا رویہ تبدیل ہونے لگتا ہے جو عورت کے ڈپریشن میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ حمل کے دوران ہونے والا ڈپریشن، اسٹریس اور گھبراہٹ کے ساتھ مل کر ماں اور بچے دونوں کی صحت  (health) پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔

اس کے برعکس جنس کے بارے میں معلومات دے دینے کی حمایت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ بچے کی جنس کے بارے میں جاننا ماں باپ کا حق ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر والدین خاص طور پر ماں کو بچے کی جنس کے بارے میں پہلے سے پتا ہو تو وہ خود کو ذہنی طور پر تیار کر سکتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ عورت کو اپنے بچے کے بارے میں ہر معلومات حاصل کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ لینے کا پورا حق اور آزادی ملنی چاہیے ۔

البتہ میرے خیال میں اگر ماؤں کو بچے کی جنس کے بارے میں معلوم نہ ہو تو وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوگی۔ میرے مطابق ماں کے حقوق سے زیادہ اس کی اور اس کے بچے کی صحت (health) زیادہ اہم ہے ۔ اس لیے اس راز کو راز ہی رکھنا چاہیے اور معالج کو اپنی توجہ ماں اور بچے کی صحت پر مرکوز رکھنی چاہیے ۔

جنسی تعصب بڑھنا

بچے کی پیدائش سے پہلے اگر جنس معلوم ہوجائے تو اس طرح گھرانوں میں جنسی تعصب کو فروغ ملتا ہے جوکہ مجموعی طور معاشرتی سوچ پر منفی اثرات مرتب کرتاہے ۔ ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہاں لڑکی کی پیدائش کو خاندان کے لیے ایک کلنک تصور کیا جاتا ہے ۔ مردوں سے خاندان کا نام چلتا ہے اس لیے سب کی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ خاندان میں زیادہ سے زیادہ بیٹے ہوں تاکہ گھرانے کا نام آگے بڑھ سکے ۔ یہ جنسی تعصب مزید بڑھ کر گھریلو تشدد ، علیحدگی اور اسقاط حمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی ایک تہائی خواتین نے خود پر ہونے والے تشدد اور دیگر مظالم کی وجہ بیٹا نہ پیدا کرپانا بتائی ہے ۔

یوں تو اس جنس پرستی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ابھی کافی وقت درکار ہے لیکن پیدائش سے پہلے بچے کی جنس چھپا کر ہم اس تعصب کے نتیجے میں اٹھانے والے خطرناک اقدامات کوکسی حد تک کم کر سکتے ہیں ۔

لہذا الٹرا ساؤنڈ ٹیکنالوجی کو بچے کی جنس معلوم کرنے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے علاج کے غرض سے ہی استعمال کرنا چاہیے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...