رسوم و رواج کی قید میں پھنسے لوگ

578

دنیا میں رہنا ہے تو پھر سب کی طرح جینا ہو گا ،سب چیزوں،سب رسموں کو نبھانا ہو گا،دنیا سے کٹ کر تو نہیں رہا جا سکتا ،اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنائی جا سکتی۔عام طور پر شادی بیاہ یا اسی طرح کے ملتے جلتے معاملات میں کسی بھی اچھے سلجھے ہو ئے یا آسان مشورے کے جواب میں لوگوں سے کچھ اسی قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔ہمارے ہاں جس قدر مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اسی قدر لوگوں میں دکھاوا اورتصنع بھی بڑھتا جارہا ہے لیکن حال ہی میں یہ دیکھ کر خوشی ہو ئی کہ کچھ فیمیلیز نے یہ قدم اٹھایا کہ اپنے بیٹوں کے لئے اچھی سلجھی ہوئی ،پڑھی لکھی لڑکی کا انتخاب کیا اور جہیز ،بری کا سختی سے منع کر دیا ۔خود بھی بے جا خرچے سے گریز کیا اور لڑکی والوں کو بھی ان فضول خرچیوں سے منع کیا ۔اس کے علاوہ مہندی مایوں جیسی ہندودانہ رسموں میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے شادی اور ولیمہ میں اچھی طرح زیادہ مہمان بلا کر اچھا کھانا کر کے لوگوں کے منہ بند کر دئیے۔دیکھا جائے تو نئی نسل میں یہ شعور پیدا ہورہا ہے کہ جو پیسہ بہت محنت اور لگن سے کمایا جارہا ہے اس کو اس طرح کی فضول رسموں میں لگا کر نہیں اڑایا جا سکتا ۔لیکن پرانے وقتوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے شادی بیاہ کی تقریب میں کوئی کمی چھوڑ دی تو پورے خاندان اور پوری برادری میں ہماری بے عزتی ہو جائے گی۔چنانچہ یہی سوچ ان میں دکھاوا اور فضول خرچی لے آتی ہے۔کسی بھی معاشرے میں تبدیلی اس وقت آنا شروع ہو تی ہے جب کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں شعور کی کمی نہ ہو ۔اپنے فرائض کو بخوبی پہچانتے ہوں اور ان کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر کسی بھی گھر میں شادی کی تیاری یا شادی ہو نا طے پائی ہو تو وہاں ایک ہلچل مچ جاتی ہے کہ کیا ایسا کریں کہ خاندان میں واہ واہ ہو جائے۔یا کہیں کو ئی کمی نہ رہ جائے کہ لوگ باتیں بنائیں ،لوگوں کی باتیں ہمارا اصل مسئلہ ہیں ،ہم صرف یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ لو گ باتیں نہ بنائیں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری جیب ہمیں کتنا کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔سب سے بہتر رشتہ وہی ہوتا ہے جو کہ اپنی حق حلال کی کمائی میں ،سادگی سے جوڑا جائے ،اس رشتے میں محبت اور برکت اللہ تعالی خود پیدا کر دیتا ہے ۔آج کل ربیع الاول کو مہینہ شروع ہو گیا ہے اور اس مہینے کے شروع ہوتے ہی شادی بیاہ کی تقریبات اپنے عروج پرپہنچ جاتی ہیں ۔ایسے میں تمام رشتہ داروں کو منانا اور بغیر کسی بد مزگی کے تقریبات میں شریک کرنا کسی جوئے شیر لانے سے کم ثابت نہیں ہوتا۔ہر خاندان میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کام ہی صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ہر بات ،ہر تقریب میں کیڑے نکالتے ہیں اور عین تقریب کے دن ناراض ہو کر گھر چلے جاتے ہیں ،جس کے بعد گھر والوں کا ایک وفد ان کو منانے جاتا ہے اور ان کی خوشامد کر کے ان کو لے کر آتا ہے۔

تقریبات کی بھر مار:

آج کل ایک رواج جو عام ہونے لگا ہے وہ ڈھولکیوں کی بھرمار ڈھولکیوں کے نام پر ہر روز سب لڑکے لڑکیاں جمع ہوتے ہیں اور پھر رات رات بھر ناچ گانا ہو تا ہے۔سب سے پہلے کسی کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری کسی بھی تقریب سے دوسرے لوگ یا محلے والے تکلیف محسوس نہ کریں کیونکہ آپ کو نہیں پتہ کہ آپ کے پڑوس میں کون بیمار ہے کون تکلیف میں ہے اور آپ کے رات بھر کے شور شرابے سے اس کے اوپر کیا گزر رہی ہے۔دوسرے اس طرح ہر روز جمع ہونا اور ناچ گانے میں اپنا وقت ضایع کرناایک انتہائی فضول طریقہ ہے،تیسرے ہر روز جمع ہونے والوں کے لئے کھانے پینے ،ہلے گلے کے لئے انتظام کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ،اسی لئے بجائے اس کے کہ دکھاوے کے لئے ،بے جا اسراف کیا جائے یا قرض ادھار کر کے جھوٹی شان دکھائی جائے ۔اس سے بہتر ہے کہ ان چیزوں سے گریز کیا جائے۔

شادی کے جوڑے کا انتخاب:

شادی کے جوڑے کا انتخاب کرتے ہو ئے یہ خیا ل کریں کہ بہت مہنگا جوڑا نہ خریدیں کیونکہ وہ شادی کے دن کے بعد شاذو نادر ہی پہننے میں آتا ہے ،ایسے میں اگر پشواز اور چوڑی دار پاجامہ یا آج کل میکسی اسٹائل لانگ شرٹس چل رہی ہیں وہ لے لیں تو بہتر ہے،شرارے غراروں کا انتخاب محض پیسوں کا ضیاں ہے۔جوڑا ایسا ہو جو بعد میں بھی آپ کے پہننے میں آجائے۔

کھانے کا مینو:

کھانے کے مینو کا انتخاب کرتے ہوئے کسی کی نقل نہیں بلکہ موسم اور حالات کو مدنظر رکھیں ۔کیونکہ گرمی اور سردی کے موسم کے حساب سے مینو میں فرق ہونا چاہیے تاکہ کھانا کھایا جا سکے۔سردی میں زیادہ چکنائی والے کھانے نہ ہوں یا گرمی میں زیادہ مرچ مصالحے والے کھانوں سے گریز کریں ،اسی طرح بارش وغیرہ میں بھی خیال رکھیں کہ بہت زیادہ کھانا نہ ہو کہ اگر بارش ہو جائے تو وہ کھانا ضایع ہوجائے ۔اسی طر ح اگر شہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو بے حساب کھانا بنوانے سے گریز کریں ۔کھانا کھلاتے ہو ئے اس کی مینجمنٹ کی ذمہ داری کسی نہ کسی کو ضرور سونپ دیں تاکہ کھانا برباد نہ ہو۔
شادی چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی،دونوں میں سمجھداری اور دانشمندی ضروری ہے محض لوگوں کی باتوں میں آکر بے حد و بے حساب خرچ کر نا انتہائی بے وقوفی اور سراف ہے،جس سے ہما رے مذہب میں بھی منع کیا گیا ہے اور معاشرے میں بھی اس سے صرف فضول خرچی کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔جس کی زد میں آکر کتنی ہی لڑکیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور کتنی لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں کیونکہ ان کے والدین اتنا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...