نہانا پڑ نہ جائے بھاری!

4,241

کیا جب آپ نہا کر نکلتے ہیں تو جلد خشک ہوجاتی ہے اورکچھ دیر بعد اس میں خارش سی محسوس ہوتی ہے ؟کیا نہانے کے بعد آپ کے بال پہلے کے مقابلے میں اور زیادہ خراب نظر آنے لگتے ہیں؟اگریہ بات ہے کہ تو قصور نہانے کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ آپ نہاتے کس طرح ہیں۔یہاں ہم ایسی ہی پانچ باتوں کا ذکر کررہے ہیں جن کی وجہ سے نہانا آپ کے لیے فائدے کے بجائے مسائل کا سبب بن جاتا ہے۔

زیادہ دیر نہانا

جب آپ نہانے میں زیادہ دیر لگاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی جلد کو زیادہ خشک کررہے ہیں۔خاص طور پر اس وقت جب آپ گرم پانی سے نہا رہے ہوں۔امریکن اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی کی ماہر جلد سینڈی جانسن کا کہناہے کہ شاور کے نیچے دس منٹ سے زیادہ نہیں رہنا چاہئے۔کیونکہ زیادہ دیر نہانے سے آپ کی جلد ڈی ہائیڈریٹ ہوجاتی ہے ۔ اور پانی گرم ہو تو جلد کی ڈی ہائیڈریشن کا عمل اور تیز ہوجاتا ہے۔ گرم پانی سے آپ جتنا زیادہ نہائیں گے ، آپ کی جلد پر موجود قدرتی چکنائی اتنی ہی زیادہ دھلتی چلی جائے گی ۔گرم پانی کی وجہ سے خون کی نالیاں بھی نرم پڑ جاتی ہیں جس کا نتیجہ جلد پر سرخ دھبوں اور سرخ دانوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔اگر یہ کافی نہیں تو یہ بھی سن لیں کہ زیادہ نہانے سے آپ کی جلد زیادہ حساس ہوجاتی ہے ۔اور یہ حساسیت جلد پر پہلے سے موجود چنبل یعنی ایکزیما اور ریشز کو مزید بگاڑنے کا سبب بنتی ہے ۔

تولیہ سختی سے رگڑنا

امریکی ماہر جلد سینڈی جانسن کا مشورہ ہے کہ نہانے کے بعد تولیے کو جلد پرسختی سے رگڑنا نہیں چاہئے۔ اس کے بجائے تولیے کو جلد پر آہستہ آہستہ ملیں اور پانی خشک کریں۔زیادہ رگڑنے سے جلد خراب ہوتی ہے۔ خشک کرنے کے بعد جلد پر موائسچرائزنگ کریم ضرور لگائیں۔ اس سے آپ کی جلد ری ہائیڈریٹ ہوجائے گی۔اسی طرح بال بھی جب خشک کریں تو تولیہ سے آہستہ آہستہ پانی صاف کریں۔ زیادہ سختی سے رگڑنے کے باعث بالوں کے ٹوٹنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے کیونکہ جب آپ نہا کر نکلتے ہیں تو اس وقت آپ کے بال انتہائی کمزور حالت میں ہوتے ہیں اور آسانی سے ٹوٹ سکتے ہیں۔

خوشبودار صابن کو ترجیح

ایک تو ہمارے ہاں یہ رواج ہوگیا ہے کہ خوشبودار صابن سے ہی نہانا ہے۔جبکہ ماہر جلد سینڈی جانسن کہتی ہیں کہ نہانے کے لئے بغیر خوشبو والے صابن کا ہی استعمال کرنا چاہئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ صابنوں میں جو خوشبو ڈالی جاتی ہے اس میں کچھ ایسے کیمیکلز بھی ہوتے ہیں جو حساس جلد کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔اسی طرح نہانے کے دوران اسکرب کا بھی استعمال نہیں کرنا چاہئے۔اس سے بھی جلد خراب ہوتی ہے۔اور اس سے جلد پر خراشیں بھی پڑسکتی ہیں۔اگر خدانخواستہ جلد پر پہلے ہی کوئی مسئلہ ہے تو وہ بھی اور بگڑ جائے گا۔نہانے کے لیے آپ کو موائسچرائزنگ ایجنٹ استعمال کرنا چاہئے ، کیونکہ عام صابن آپ کی جلد سے قدرتی تیل دھوڈالتے ہیں، جس سے جلد خشک ہوجاتی ہے اور اس میں خارش محسوس ہونے لگتی ہے۔

روزانہ بال دھونا

یہ ضروری نہیں کہ روزانہ نہاتے ہیں تو ہر بار بال بھی دھوئیں۔بار بار بال دھونے سے بالوں کی قدرتی چکنائی بھی صاف ہوجاتی ہے ۔ یہ قدرتی چکنائی بالوں کی رونق اور مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے۔ پانی سے دھولیں ، مگر شیمپو کرنے کی ضرورت نہیں۔ہفتے میں ایک یا دو بار شیمپو کیا جاسکتا ہے ، اگر بال زیادہ میلے نہ ہوں تو دورانیہ بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔روزانہ بال دھونے سے بالوں کے ساتھ سر کی جلد بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگرآپ کے بال مضبوط اور نارمل ہیں تو آپ روزانہ انہیں پانی سے دھو سکتے ہیں۔لیکن اگر وہ موٹے یا گھنگھریالے ہیں تو روزانہ نہانے سے وہ خشک ہوجائیں گے اور ان میں بل پڑجائیں گے۔ماہرین جلد کا کہناہے کہ بال کیسے بھی ہوں زیادہ شیمپو کے استعمال سے گریز کریں۔ خاص طور پر گرم پانی کے ساتھ۔کیونکہ اس سے آپ کے بالوں کی رنگت اور رونق ماند پڑجائے گی اور چمک دمک جاتی رہے گی۔کیونکہ حرارت کی وجہ سے بالوں کی بیرونی تہہ پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے رنگ کے مالیکیول خارج ہونے لگتے ہیں۔ایسا عام طور پر ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے بال ڈائی کئے ہوئے ہوتے ہیں۔رنگ کو روکنے کے لیے ٹھنڈے پانی سے نہانا مناسب ہے۔

بھاری پانی سے نہانا

کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ آپ بھی کسی دوسرے شہر یا کسی علاقے میں جاتے ہیں اور وہاں نہاتے ہیں تو آپ کے بال اور جلد میں ایک طرح کی تبدیلی آجاتی ہے۔اگر کسی جگہ نہانے سے ایسا محسو س ہو تو سمجھ جائیں کہ وہاں بھاری پانی ہے۔پانی دیکھ کر انداز ہ نہیں لگایا جاسکتا کہ یہ عام پانی ہے یا بھاری ، نہ ہی آپ اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔بھاری پانی میں بعض معدنیات مثلاً میگنیشیم اور کیلشیم کے نمکیات ہوتے ہیں۔ یہ نمکیا ت آپ کی جلد اور بالوں سے چپک جاتے ہیں ،ناگوار بو پیدا کرتے ہیں اور بالوں کو خراب کرتے ہیں۔اس سے آپ کے بالوں کی رنگت بھی متاثر ہوتی ہے۔اگر آپ مستقل بھاری پانی سے نہائیں گے تو آپ کی جلد اور بال دونوں خراب ہونا شروع ہوجائیں گے۔اس لیے نہانے کے لیے بھاری پانی کے استعمال سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
تبصرے
Loading...